Friday, 9 September 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 4:43 pm

 

معصوم روشنی

وہ ایک عرب ملک کا رہنے والا تھا۔ کوئی خاص مقصدِ حیات نہ تھا، صرف دنیا ہی دنیا تھی ۔ اللہ کے ساتھ تعلق بھی کم ہی تھا۔ کتنی مدت سے مسجد جانا گوارا نہیں ہوا، نہ ہی اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔ وہ برے دوستوں کے ہمراہ شام سے صبح تک لہو و لعب اور بے کار کاموں میں مشغول رہتا اور بیوی کو گھر میں اکیلے چھوڑے رکھتا جو اس تنہائی سے خاصی تنگی اور پریشانی محسوس کرتی ۔ نیک اور وفادار بیوی نے اپنے شوہر کو سمجھانے بجھانے اور صحیح راستے کی طرف لانے کی بہت کوششیں کیں مگر بے فائدہ ثابت ہوئیں ۔

ایک مرتبہ وہ لہوو لعب کے کاموں میں شب بیداری کرنے کے بعد ۳ بجے گھر واپس آیا، دیکھا اس کی بیوی اور چھوٹی بچی دونوں گہری نیند میں سو رہے ہیں۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی وہ انہیں بستر پر ہی چھوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا اور فلموں اور بے حیاَئی کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔
اچانک اس کا دروازہ کھلا اور پانچ سالہ بیٹی باپ کے سامنے تھی۔ بیٹی نے باپ کی طرف انتہائی تعجب کے ساتھ حقارت آمیز نظروں سے دیکھا اور بولی :
"یا بابا عیب علیک اتق اللہ" ابا جان:- (آپ کے لیے یہ نہایت معیوب بات ہے آپ کو اللہ سے ڈرنا چاہیئے۔)
یہ جملہ بچی نے تین بار دہرایا پھر دروازہ بند کر کے چلی گئی۔

باپ پر بجلی بن کر گری بچی کی بات اور وہ سخت شرمندہ اور پشیمان ہو کر اٹھا اور فلموں کو بند کیا اور خود ہکا بکا ہو کر بیٹھ گیا۔ بچی کا جملہ اس کے دماغ میں گردش کر رہا تھا۔ پھر وہ کمرے سے نکلا بچی بستر ہر چا چکی تھی۔ وہ حواس باختہ ہو گیا اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، اس وقت اس کو کونسی آفت نے آ گھیرا ہے۔ ساتھ ہی قریبی مسجد میں سے نکلنے والی آذان کی آواز اس کے کانوں میں ٹکرائی جو ڈراؤنی رات کے سکوت کو توڑ رہی تھی۔ وہ جلدی سے اٹھا اور غیر ارادی طور پر وضو کیا اور مسجد جا پہنچا۔ اسے نماز پڑھنے کی خواہش نہ تھی بلکہ وہ اپنی بے چینی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ابھی سجدے میں پہنچ کر پیشانی زمین پر رکھی ہی تھی کہ بلا سبب اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیل امڈ آیا اور وہ سسکیاں لے کر رونے لگا۔ کئی سالوں بعد پہلی دفعہ اس کا ماتھا اپنے اللّٰہ ربّ العالمین کے آگے جھکا تھا۔ اس آہ و زاری نے اس کو احساس دلایا کہ اب اس کے ایمان کی تازگی کا وقت آ گیا ہے۔ اس نے اپنے دل و دماغ سے تمام فسق و فجور سے متعلق باتوں کو باہر نکالا اور اللہ سے سچے دل سے توبہ کی۔ اب اس کی زندگی کی کایا پلٹ چکی تھی ۔

فجر کی نماز ختم ہو گئی وہ تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھا رہا، پھر اپنے گھر کو واپس ہوا۔ کچھ سوئے بغیر پوری تیاری کیساتھ ڈیوٹی پر چلا گیا۔
جب آفس پہنچا اس کا مینیجر تعجب سے دیکھنے لگا اور اتنی جلدی آنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے گزشتہ رات کا سارا واقعہ بتایا
مینیجر نے کہا، تم اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ نے تمہیں ایسی معصوم بچی سے نوازا جس نے تمہیں ملک الموت کے آنے سے پہلے پہلے غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا۔ ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد وہ جلدی جلدی گھر کو روانہ ہوا تاکہ اپنی بیٹی سے مل سکے جو اس کی ہدایت کا سبب بنی۔ وہ گھر داخل ہوا تو اس کی بیوی نے زار و قطار آنسو بہاتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس نے پوچھا کیوں رو رہی ہو؟ بیوی نے چیختے ہوئے جواب دیا تمہاری بیٹی حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے وفات پا گئی ہے۔ اس خبر کے صدمے نے باپ کے اوسان خطا کر دئیے۔ وہ خود پر قابو نہ پا سکا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب قدرے اطمینان ہوا اس کو سمجھ میں بات آئی کہ جو کچھ بھی ہوا ہے اللہ تعالی کی طرف سے ابتلاٰ و آزمائش ہے۔ اللہ تعالی اس کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ اس نے دوست کو فون کر کے بلایا۔ بچی کو غسل دیا گیا، عزیز و اقارب جنازہ پڑھ کر دفن کرنے گئے۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے بچی کو قبر میں اتارا اور اس کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وہ بولا، میں اپنی بیٹی کو نہیں بلکہ روشنی کو دفن کر رہا ہوں، جس نے میری زندگی کی اندھیری رات کو روشنی میں بدل دیا۔ میں اس روشنی کو دفن کر رہا ہوں جس کی شعاعوں نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی اور جو مجھے فسق و فجور کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل کی دنیا میں لے آئی ۔
(ماخّوذ: سنہری کرنیں: ۲۵۵) 


0 comments:

Post a Comment