Friday, 16 September 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 12:19 pm

جولائے کی عقلمندی اور بیوی کی ہوشیاری - اسلامک گائیڈ آف لائف

چار غریب جولاہے ایک مرتبہ راہگزر کنارے بیٹھے تھے کہ ادھر سے ایک مسافر گزرا۔ اس نے ان کو غریب جان کر چار پیسے ان کی طرف اچھال دیے اور اپنی راہ پر چلتا رہا۔ ایک جولاہا سب سے پھرتیلا تھا، اس نے چاروں پیسے اچک لئے۔ باقی تینوں اس سے اپنے حصے کے لئے لڑنے لگے۔ ادھر سے ایک بابا گزرا اور اس نے جھگڑے کی وجہ جاننا چاہی۔تین جولائے بولے ”اس مسافر نے چار پیسے ہم چاروں کی طرف اچھالے تھے۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک کو ایک پیسہ دیا تھا۔ اس نے چاروں پیسے اچک لئے ہیں اور ہمارا حصہ دینے سے انکاری ہے“۔چوتھے جولاہے نے کہا ”نہیں یہ چاروں پیسے میرے ہیں۔ مسافر نے قسمت پر چھوڑ کر اچھال دیے تھے کہ جس کی قسمت میں ہوں وہ پا لے گا“۔جھگڑا دوبارہ شروع ہونے کو تھا کہ بابے نے کہا ”وہ مسافر زیادہ دور نہیں گیا ہے۔ دوڑ کر جاؤ اور اس سے فیصلہ کرا لو۔ “ چاروں جولاہوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور انہوں نے دوڑ کر مسافر کو جا لیا۔مسافر ان کی بات سن کر حیران ہوا، پھر کہنے لگا ”پہلے مجھے یہ پتہ چلنا چاہیے کہ تم چاروں میں سب سے زیادہ عقلمند کون ہے، اس کے بعد میں تمہیں بتاؤں گا کہ میرا ارادہ کسے پیسے دینے کا تھا“۔جس جولاہے نے پیسے پکڑے تھے وہ کہنے لگا ”میں ایک انتہائی ذہین آدمی ہوں۔ اگر تم میری کہانی سنو تو میں یہ ثابت کر دوں گا۔ “ مسافر نے اثبات میں سر ہلایا اور جولاہے نے اپنی کہانی شروع کی۔جب میری شادی ہوئی تو میں ایک دن اپنے سسرال کی طرف چلا۔ اپنے ساتھی کے طور پر میں نے گاؤں کے نائی کو لے لیا۔ ابھی کچھ فاصلہ رہتا تھا کہ اندھیرا چھانے لگا۔ اب میری آنکھیں خراب ہیں اور میں رات کو دیکھنے سے قاصر ہوں۔ ہم چل رہے تھے کہ سامنے ایک تالاب آ گیا۔ سڑک تاریک تھی اور پانی چمک کی وجہ سے مجھے سفید دکھائی دیا۔ میں نے سوچا کہ یہی سڑک ہے۔ اگلے لمحے میں پانی میں گردن تک ڈوب گیا۔نائی نے یہ دیکھا تو کہنے لگا ”بھائی تم کہاں چلے گئے ہو؟ “میں نے جواب دیا ”میں بس ایک منٹ میں واپس آتا ہوں“۔ میں نے یہ اس لئے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آ رہی تھی کہ میں اتنا بے وقوف تھا کہ جان بوجھ کر پانی میں چلا گیا۔ اور یہ بتاتے ہوئے دگنی شرم آ رہی تھی کہ میں رتوندھا ہوں۔ لیکن مجھے کنارہ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا کہ میں اسے پکڑ کر باہر نکلتا۔ میں کنارے کی تلاش میں ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔مجھے ہاتھ پاؤں مارتے دیکھ کر نائی چیخنے لگا ”بچاؤ بچاؤ، ایک آدمی ڈوب رہا ہے“۔یہ پکار سن کر تین چار آدمی دوڑتے ہوئے آئے لیکن ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی میں باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجھے باہر نکلتے دیکھ کر نائی حفاظت کی خاطر ہمارے سامان کے پاس چلا گیا۔مدد کو آنے والوں میں سے ایک نے پوچھا ”صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اتنا زیادہ پانی ہے۔ تم اندر کیسے گر گئے؟ “میں نے جواب دیا ”اس نائی نے کہا تھا کہ یہ بالکل اتھلا پانی ہے، تو میں نے اندر چھلانگ لگا کر اسے دکھا دیا کہ کتنا گہرا ہے“۔وہ سب نائی کی حماقت پر خوب ہنسے اور اپنی راہ پر چلے گئے۔ میں نے کپڑے نچوڑے۔ اتنی دیر میں نائی کچھ آگے نکل گیا تھا اور گاؤں میں داخل ہو گیا۔ میں تیزی سے اس کے پیچھے چلا لیکن مجھے دکھائی ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں گیا ہے۔ آگے کچھ بھینسیں چل رہی تھیں۔ میں نے یہ سوچ کر ایک بھینس کی دم پکڑ لی کہ وہ اپنے گھر پہنچے گی تو میں اس کے مالک سے اپنے سسرال کا پتہ پوچھ لوں گا اور وہ مجھے میرے سسرال چھوڑ آئے گا۔اتنی دیر میں نائی مجھے اپنے پاس نہ پا کر پلٹ آیا اور مجھے بھینس کی دم پکڑے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ”تم نے اس بھینس کی دم کیوں پکڑ رکھی ہے؟ “ اس نے پوچھا۔مجھے آوازوں سے پتہ چل گیا تھا کہ کچھ دیہاتی نزدیک ہیں۔ اگر ان کو پتہ چلتا کہ میں رتوندھا ہوں اور راستہ کھو بیٹھا ہوں تو وہ خوب ہنستے۔ اس لئے میں نائی پر چلانے لگا ”تم جیسا احمق میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ تم کہہ رہے تھے کہ اس بہترین بھینس کی قیمت صرف پانچ روپے ہے۔ کوئی اندھا بھی بتا سکتا ہے کہ یہ پچیس روپے سے کسی طرح بھی کم نہیں ہو سکتی ہے“۔میری یہ بات سن کر دیہاتی بہت متاثر ہوئے کیونکہ ان میں سے ایک نے کہا ”اتنا عقل مند جولاہا کوئی دوسرا نہیں دیکھا“۔اس کے بعد میں نائی کے پیچھے پیچھے اپنے سسرال تک بعافیت پہنچ گیا اور ہمارے لئے صحن میں چارپائیاں بچھائی گئیں۔ ادھر ایک چھوٹا سا بچھڑا پھر رہا تھا جو بار بار میرے اور نائی کے پاس آ کر ہمیں سونگھتا اور چاٹتا حالانکہ ہم نے کئی مرتبہ اسے دھکیل کر دور کرنے کی کوشش کی۔اتنے میں میری ساس ہمارے لئے کچھ روٹیاں پکا کر لائی اور ہماری چارپائی پر رکھ کر گھی لانے کے لئے باورچی خانے واپس گئی۔ بچھڑا دوبارہ ہماری طرف آیا اور نائی نے اسے ڈنڈے سے دور بھگایا۔ وہ بیٹھا ہی تھا کہ میری ساس گھی لے کر واپس آئی اور روٹی پر گھی چپڑنے لگی۔ اندھیرے میں مجھے بالکل بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن روٹی پر گھی چپڑنے کی آواز سن کر یہ سمجھا کہ بچھڑا میری روٹی چاٹ رہا ہے۔ میں نے غصے میں آ کر ایسے زور سے بازو گھما کر ایک لگائی کہ میری ساس دور جا کر گری اور سارا گھی گر گیا۔لیکن وہ اتنی نرم دل تھی کہ اٹھی اور بغیر کچھ کہے اندر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد نائی نے کہا ”خدا کرے کہ ایسا نہ ہو مگر مجھے لگتا ہے کہ تم نے اپنی ساس کو مارا ہے“۔ہم سونے کے لئے چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ مجھے اشرفیوں کے کھنکنے کی آوازیں آئیں۔ مجھے لگا کہ کوئی چور آ گیا ہے۔ میں نے اپنی لمبی پگڑی کا ایک سرا چارپائی سے باندھا اور دوسرا سرا پکڑ کر آواز کی طرف گیا تاکہ اس کے ذریعے واپس چارپائی تک پہنچ سکوں۔ میں دروازے تک پہنچا تو آواز رک گئی۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر پگڑی کو کھینچ کر واپس چارپائی تک جانے کی کوشش کی مگر یکلخت ساری پگڑی میرے ہاتھ میں آ گئی۔اس بدبخت بچھڑے نے پگڑی کو درمیان سے کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیا تھا اور یہ آواز بھی اس کے گلے کی گھنٹی کی تھی۔ ”اب میں کیا کروں؟ “ میں نے سوچا کیونکہ مجھے بالکل بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں ٹٹولتا ٹٹولتا اندازے سے اپنی چارپائی کی طرف بڑھا۔ اچانک میری پنڈلی ایک چارپائی سے ٹکرائی اور میں اس پر سوئی ہوئی اپنی ساس پر گر گیا۔وہ گھبرا کر چلائی ”تم یہاں کس نیت سے آئے ہو؟ “میں نے فوراً کہا ”ماں جی، جب آپ مجھے گھی دے رہی تھیں تو اندھیرے کی وجہ سے میں یہ سمجھ کہ بچھڑا ہماری روٹی چرانے آیا ہے اور میں نے دیکھے بغیر ہی آپ کو تھپڑ مار دیا۔ میں اب شرمندگی سے سو نہیں پا رہا تھا اور معافی مانگنے آیا ہوں“۔میری ساس یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔ کہنے لگی ”بیٹے جا کر سو جاؤ۔ میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے“۔”نہیں ماں جی۔ مجھے ایسے یقین نہیں آ رہا ہے کہ آپ کا دل صاف ہو گیا ہے۔ مجھے میری چارپائی تک خود چھوڑ کر آئیں تاکہ مجھے یقین آ جائے کہ آپ کے دل میں غصہ نہیں ہے“۔تو یوں وہ نیک دل خاتون مجھے میری چارپائی تک لے گئی اور پھر میں نے ساری رات اٹھنے کی جرات نہیں کی اور سوتا رہا۔ اے نیک دل مسافر، اب تم خود ہی بتاؤ کہ کیا تم نے کبھی میرے جتنا عقلمند آدمی دیکھا ہے جس نے اس طرح سسرال میں اس طرح عقل لڑا کر اپنی عزت بچائی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلنے دیا کہ میں رتوندھا ہوں۔مسافر کے کچھ بولنے سے پہلے ہی دوسرے جولاہے نے اپنی عقلمندی کی کہانی سنانی شروع کر دی کہ اس نے کیسے عقل لڑا کر سسرال میں اپنی عزت بچائی۔ (جاری ہے)تو صاحبو۔ بات کچھ یوں ہے کہ عزت بچنی چاہیے، اپنی کمزوری کا اعتراف کر کے اس کا علاج نہیں کرنا چاہیے، بیڑہ چاہے جتنا بھی غرق ہو جائے اس کی پروا مت کریں۔ (ایک قدیم دیسی حکایت)۔ایک جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائیدوسرے جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائیتیسرے جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائیچوتھے جولاہے نے عقل لڑا کر سسرال میں عزت بچائی


 

0 comments:

Post a Comment