Saturday, 10 September 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 4:23 pm

 

عقیدہ ختمِ نبوت مستند دلائل کی روشنی میں حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام :
خاتم کا مطلب ہے ، مہر لگانے والا اور خاتم النبیین کا معنیٰ یعنی سب سے آخری نبی ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے ، وہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی پر وحی آسکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو ۔ اسلام کا یہی عقیدہ ’’ختم نبوت‘‘ کے نام سے معروف ہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزوِ ایمان قرار دیتی آئی ہے ۔ قرآن کریم کی بلا مبالغہ بیسیوں آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں ۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلّم اور طے شدہ ہے اور اس موضوع پر بے شمار مُفصّل کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔

عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے ۔ دیگر تمام انبیاء علیہم السلام صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث کیے گئے جب کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام عالم انسانیت کےلیے مبعوث فرمائے گئے ۔ آپ پر نازل کردہ کتاب لاریب قرآن مجید تاقیامت تمام انسانیت کےلیے رشد و ہدایت کا منبع ہے ۔ آپ کی نبوت تاقیامت جاری و ساری ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی چند لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قتل کروا دیا ۔ مسلمانوں کی تاریخ کی سب سے زیادہ خون ریز جنگ نبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی جس میں کم و بیش بارہ سو اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید ہوئے جن میں سے سات سو حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے ۔

پتہ یہ چلا کہ صحابہ کرام کا بھی یہ اجماعی عقیدہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ عزوجل کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے ۔ چنانچہ خیر القرون سے لےکر آج تک تمام امہ کا یہ مسلمہ اور اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ قرآن اور احادیث متواترہ اس حقیقت پر دال ہیں ۔

عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت

ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے ، جو اسلام کے اصول اور ضروریاتِ دین میں شمار کیے گئے ہیں ، اور عہدِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں ۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ ، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کےلیے جتنی جنگیں لڑی گئیں ، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کی کل تعداد 259 ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کےلیے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کے عہدِ خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی ، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی ﷲ عنہم اور تابعین رحمہم ﷲ علیہم اجمعن کی تعداد بارہ سو ہے جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم ہیں ، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کےلیے جامِ شہادت نوش کر گئی ۔ اسلام کی باقی تمام جنگوں میں کفار کی عورتوں ، بچوں ، باغات اور فصلوں وغیرہ کو نقصان نہیں پہنچایا گیا لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے اس جنگ میں حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ کو حکم دیا کہ ان مرتدین کی عورتوں ، بچوں ، باغات اور فصلوں کو بھی ختم کر دیا جائے ۔اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔

حضرت حبیب بن زید انصاری رضی ﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا ، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷲ کے رسول ہیں ؟ حضرت حبیب رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ہاں ، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی ﷲ کا رسول ہوں ؟ حضرت حبیب رضی ﷲ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا ، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب رضی ﷲ عنہ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو شہید کر دیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم مسئلہ ختمِ نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے ، اب حضرات تابعین رضی ﷲ عنہم میں سے ایک تابعی رضی ﷲ عنہ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو : حضرت ابو مسلم خولانی رضی ﷲ عنہ جن کا نام عبدﷲ بن ثوب رضی ﷲ عنہ ہے اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کےلیے ﷲ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرما دیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کےلیے آتشِ نمرود کو گلزار بنا دیا تھا ۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے لیکن سرکار کل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا ۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کےلیے مجبور کیا کرتا تھا ۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی ﷲ عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی ، حضرت ابو مسلم رضی ﷲ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟ حضرت ابو مسلم رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ہاں ، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم رضی ﷲ عنہ کو اس آگ میں ڈال دیا ، لیکن ﷲ تعالیٰ نے ان کےلیے آگ کو بے اثر فرما دیا ، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے ۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقأ پر ہیبت سی طاری ہو گئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو ، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل آجائے ، چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا ۔ یمن سے نکل کرمدینہ منورہ تشریف لے آئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا ’’ﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس شخص کی زیارت کرا دی جس کے ساتھ ﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل ﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا ۔

منصبِ ختمِ نبوت کا اعزاز

قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ”رب العالمین“ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس کےلیے ”رحمۃ للعالمین“ قرآن مجید کےلیے ”ذکر للعالمین“ اور بیت اللہ شریف کےلیے ”ھدی للعالمین“ فرمایا گیا ہے ، اس سے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصفِ ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس کےلیے ثابت ہوتا ہے ، اس لیے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کےلیے تشریف لائے ، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کےلیے ایک اکائی (ون یونٹ) بنا دیا ۔ جس طرح کل کائنات کےلیے اللہ تعالیٰ ”رب“ ہے ، اسی طرح کل کائنات کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”نبی“ ہیں ۔ یہ صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اعزاز و اختصاص ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے لیے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے : میں تمام مخلوق کےلیے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ۔
(مشکوٰۃ صفحہ 512 باب فضائل سید المرسلین مسلم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر  199)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت آخری امت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت ﷲ شریف ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے ۔ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصبِ ختمِ نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو ﷲ تعالیٰ نے پورے کر دیے ، چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت ﷲ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختمِ نبوت کے صدقے میں ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے : انا آخر الانبیأ وانتم آخرالامم ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ297)

عقیدہ ختم نبوت قرانی آیات کی روشنی میں

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۔ (سورہ الأحزاب آیت نمبر 40)
ترجمہ : محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘ لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ‘ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے  ۔

تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا ۔

خاتم النبیین کی نبوی تفسیر
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں ۔
(سنن ابوداؤد ، جامع ترمذی)

اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے ۔اسی لیے حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے ۔
(تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 494)

خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کےلیے اس مضمون میں کچھ آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں : ⬇

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا : اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں ۔
(تفسیر ابن جریر صفحہ 16جلد 22)

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے تمام انبیأ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ختم کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے ۔ (تفسیر درّ منثور صفحہ 204 جلد 5)

کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے ؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے ؟

خاتم النبیین اور اجماع امت

حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول ، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے ۔ (الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123)

علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں : اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے ، احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے ، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا ۔
(تفسیر روح المعانی صفحہ 39 جلد 22)

علامہ ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہو سکتا ، کیونکہ مقامِ نبوت مقامِ رسالت سے عام ہے ۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے ۔
(تفسیر ابن کثیر صفحہ 493 جلد 3)

امام قرطبی علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ : خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں ۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (تفسیر قرطبی صفحہ نمبر 196 جلد نمبر 14)

پس عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے ۔ سورۂ احزاب کی آیت 40 آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پہلے گزر چکی ہے ، اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں : ⬇

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ ۔ (سورہ مائدہ: 3)
ترجمہ :  آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا ۔

نوٹ : یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے ‘ اس لیے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مبعوث ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے ، اسی لیے اس کے بعد ”واتممت علیکم نعمتی“ فرمایا ، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا ، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلہ وحی جاری رہ سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین : قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے ۔
(رواہ البخاری)

اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی (81) دن حیات رہے اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل ، آخری کتاب ہے ۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورۂ سبا: 28)
ترجمہ : اور اے محبوب!ہم نے آپ کو تمام لوگوں کےلیے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ ۔ (سورۂ اعراف : 158)
ترجمہ : تم فرماؤ : اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔

یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کر رہی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بغیر استثنأ تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے : انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی ۔
ترجمہ : میں اس کےلیے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کےلیے بھی جو میرے بعد پیدا ہو ۔
(کنز العمال جلد 11 صفحہ 404 حدیث 31885)
(خصائص کبریٰ صفحہ 88 جلد 2)

پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فۃ الناس کی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہو سکتے بلکہ براہِ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہو گا ، ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا ۔ (معاذ اللہ)

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ (سورۂ انبیاء: 107)
ترجمہ : اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کےلیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔

یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لیے کافی ہے ۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان فرض ہو گا ، اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی اور یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صاحب الزمان رسول نہیں رہے ؟ (معاذ اللہ)

وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ (4) اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (5) ۔ (سورۂ بقرہ : 4،5)
ترجمہ : اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ، یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ ۔ (سورہ النسأ: 136)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی (ان سب پر ہمیشہ) ایمان رکھو ۔

یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی عہدہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضروری تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا ، معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا ۔

حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری نبی ہیں  کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں  آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں  مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو ں  گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں  مگر نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں  گے اور اسی شریعت پر حکم کریں  گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں  گے ۔
(تفسیر خازن الاحزاب الآیۃ : ۴۰، ۳ / ۵۰۳)

یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے ، ان سب سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں  اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں  ۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر ، کافر اور اسلام سے خارج ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ سچا اور اس کا کلام سچا ، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ماننا ، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالٰی کو اَحد ، صَمد ، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک ، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے ، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں  خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بِعثَت کو یقیناً محال و باطل جاننا فرضِ اَجل و جزء اِیقان ہے ۔ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ،، نصِ قطعی قرآن ہے ، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا ، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا ، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کےلیے جہنمی) ہے ، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر ، جو اس کے کافر ہونے میں  شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے ۔
(فتاویٰ رضویہ رسالہ جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ ، ۱۵ / ۶۳۰)


حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں  ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں  نہ رکھی ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں  اور میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ  ہوں ۔
(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین، صفحہ ۱۲۵۵، الحدیث: ۲۲ (۲۲۸۶))

حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ توالیٰ نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں  نے اس کے مشرقوں اور مغربوں  کو دیکھ لیا ۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں  گے ، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں  خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں اورمیرے بعد کوئی نبی نہیں  ہے ۔
(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، ۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۲۵۲)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام پر فضیلت دی گئی ہے ۔ (1) مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں ۔ (2) رعب سے میری مددکی گئی ہے ۔ (3) میرے لیے غنیمتوں  کو حلال کر دیا گیا ہے ۔ (4) تمام روئے زمین کو میرے لیے طہارت اور نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے ۔ (5) مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے ۔ (6) اور مجھ پر نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کیا گیا ہے ۔
(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں  احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے ، میں حاشر ہوں میرے قدموں  پر لوگوں کا حشر ہوگا ، میں  عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔
(ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی اسماء النبی ﷺ، ۴ / ۳۸۲، الحدیث: ۲۸۴۹)

حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں  تمام رسولوں  کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا ، میں تمام پیغمبروں کا خاتَم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں  فرماتا ۔
(معجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد ۱ / ۶۳، الحدیث ۔ ۱۷۰)

حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (لکھا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے ۔
(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۸۷، الحدیث:۱۷۱۶۳)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ کُل عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک رسالت اور نبوت ختم ہو گئی ، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی ۔(ترمذی کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ ﷺ ، باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)

حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ارشاد فرمایا : اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ۔
(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴))
ترجمہ : کیا تم اس پر راضی نہیں  کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام جب اپنے رب سے کلام کےلیے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام کو اپنی نیابت میں  چھوڑ گئے تھے ، ہاں  یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ السَّلَام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کےلیے نبوت نہیں  اس لیے تم نبی نہیں ہو ۔

حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شَمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ خاتَمُ النَّبِیِّیْن تھے ۔
(ترمذی کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ ﷺ،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)

حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ، لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو ، پانچ نمازیں  پڑھو ، اپنے مہینے کے روزے رکھو ، اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ، اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ ۔
(معجم الکبیر، صدی بن العجلان ابو امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، محمد بن زیاد الالہانی عن ابی امامۃ، ۸ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۵۳۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ختمِ نبوت کے مزید دلائل اور مُنکروں کے رد کے بارے میں  معلومات حاصل کرنے کےلیے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14 میں  موجود رسالہ ’’اَلْمُبِیْن خَتْمُ النَّبِیِّیْن‘‘ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے دلائل) اور جلد نمبر 15 میں  موجود رسالہ ’’جَزَاءُ اللہِ عَدُوَّہٗ بِاِبَائِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃِ‘‘ (ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کا رد) مطالعہ فرمائیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)


0 comments:

Post a Comment