اسلام میں راستے کے آداب اور اُس کے حُقوق
حضرت سَیِّدُنا منصور بن ذ کی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب مرض الموت میں مبتلاء ہوئے تو رونے لگے اور اتنا بے قرار ہوئے ، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کی موت پر بے قرار ہوتی ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ، ’’حضرت ! آپ کیوں رو رہے ہیں ؟جبکہ آپ نے تو بڑی پاکیزہ اور پرہیز گاری کی زندگی بسر کی ہے اور اَسّی برس اپنے رب تَعَالٰی کی عبادت وبندگی کی ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا ، ’’میں اپنے گناہوں کی نحوست پر آنسو بہا رہا ہوں ، جن کی وجہ سے میں اپنے رب تَعَالٰی کی رحمت سے دور ہوں ۔‘‘یہ فرما کر آپ دوبارہ رونے لگے ۔
لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ في الجنةِ في شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ كَانتْ تُؤْذِي المسلمينَ
پھر کچھ دیر بعد اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر فرمایا، ’’میرے بیٹے! میرا چہرہ قبلہ کی طرف پھیر دو اور جب میری پیشانی سے قطرے نمودار ہونے لگیں او رمیری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں تو میری مدد کرنا اور کلمہ شریف پڑھنا ، شاید مجھے کچھ افاقہ ہو جائے ۔ اورمیرے مرنے کے بعد جب مجھے دفن کر و اور میری قبر پر مٹی ڈال چکو تو وہاں سے روانہ ہونے میں جلدی نہ کرنا بلکہ میری تُربت کے سرہانے کھڑے ہو کر ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘پڑھنا کہ اس سے مجھے منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دینے میں آسانی ہو سکتی ہے، اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کرنا ، ’’اے مالک ومولا ! یہ تیرا بندہ ہے ، اس نے جوگناہ کئے سو کئے ، اگر تو اسے عذاب دے تو یہ اسی کا حق دار ہے اور اگر تُو اسے معاف کردے تو یہ تیرے شایان شان ہے ۔‘‘پھر مجھے الوداع کہتے ہوئے واپس پلٹ آنا۔‘‘
آپ کے انتقال کے بعد بیٹے نے آپ کی وصیت پر حرف بحرف عمل کیا ۔ پھر اس نے دوسری رات خواب میں آپ کودیکھا تو پوچھا ، ’’ابا جان! کیا حال ہے ؟‘‘ آپ نے جواب دیا ، ’’میرے بیٹے! معاملہ تو اتنا مشکل اور سخت تھا کہ تو تصور بھی نہیں کر سکتا، جب میں اپنے رب کی بارگاہ میں حساب کے لئے کھڑا ہوا تو اس نے فرمایا، ’’میرے بندے! بتاؤ، میرے لئے کیا لے کر آئے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کی، ’’یااللہ ! ساٹھ حج لایا ہوں ۔‘‘جواب ملا، ’’مجھے ان میں سے ایک بھی قبول نہیں ۔‘‘یہ سن کر مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ اللہ تَعَالٰی نے پھر پوچھا ، ’’بتاؤ! اور کیا لائے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی ، ’’ایک ہزار درہم کا صدقہ وخیرات۔‘‘ ارشاد فرمایا ، ’’ ان میں سے ایک درہم بھی مجھے قبول نہیں ۔‘‘ میں نے کہا، ’’یا الٰہی ! پھر تو میں ہلاک ہوگیا اور اب میرے لئے تباہی وبربادی ہے ۔‘‘تو رب تَعَالٰی نے فرمایا، ’’کیا تجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ تو اپنے گھر سے باہر کہیں جارہا تھا کہ راستے میں تو نے ایک کانٹا دیکھا اور لوگوں کو اذیت سے محفوظ رکھنے کی نیت سے وہ کانٹا راستے سے ہٹادیا تھا ، میں نے تیرا وہی عمل قبول کیا اور اس کی وجہ سے تیری بخشش کر دی ۔‘‘
(حکایات الصالحین، ص ۵۱)
0 comments:
Post a Comment