Saturday 10 September 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 3:49 pm

ہمسفر ہو تو ایسا ہمسفر زندگی ہے میری ہمسفر وہ ہمسفر تھا مگر!!!

فائزہ  میری بیٹی بس کل سے تم سکول نہیں جاو گی 
فائزہ نے کہا لیکن ماما جان کیوں فائزہ کی ماں نے کہا میری ڈاکٹر نے منع کیا ہے کے اب اگر زیادہ نظر لگا کر پڑھے گی تو نظر پہ زیادہ اثر پڑے گا اور دوسری آنکھ سے بھی نظر آنا بند ہو جائے گا 
فائزہ  10 کلاس میں پڑھتی تھی. 
لیکن جب وہ 9th میں تھی کے اچانک آنکھوں میں جلن رہنے لگی اور دیکھتے دیکھتے اس کی ایک آنکھ کی روشنی بلکل ختم ہو گئی تھی بہت محنتی تھی ہر سال کلاس میں  فرسٹ آتی تھی 
لیکن خدا نے نصیب میں کچھ اور لکھا تھا 
وہ میٹرک کے بعد بھی پڑھنا چاہتی تھی لیکن ماں باپ پریشان رہنے لگے کے ہزاروں ڈاکٹرز کو دکھا دیا لیکن ڈاکٹرز کوئی علاج نہیں کر پا رہے 
عینک لگ گئی تھی فائزہ کو دوسری آنکھ سے بھی بس 50%  نظر آتا تھا
وہ بہت خوبصورت تھی کچھ سال گزرے کے فائزہ کی  منگنی اس کے خالہ کے بیٹے سے کی ہوئی تھی بچپن میں لیکن جب شادی کی بات کی تو یہ کہہ کر خالہ نے جان چھڑوا لی کے میرا بیٹا نہیں مانتا فائزہ نے تو بچپن سے اب تک اپنے کزن میں ہی زندگی بھر کا سفر دیکھا تھا 
لیکن نصیب کے کھیل تھے فائزہ روتی تھی یا خدا کیوں میرے ساتھ ایسا کیا میرا گناہ کیا تھا مجھ سے آنکھیں لینی تھیں تو مجھے بچپن میں ہی دنیا کی یہ رنگینیاں نہ دکھاتے 
مجھے خواب نہ دکھاتے مجھے اپنوں کی آنکھوں میں وہ پیار نہ دکھاتے جو اب بدل گئے ہیں 
جو بھی رشتہ دیکھنے آتا وہ یہ کہہ کر انکار کر دیتا بیٹی اس کی نظر کا مسلئہ ہے کیا پتا کل کو جو تھوڑا سا دکھائی دیتا یے وہ بھی بند ہو جائے ماں بہت روتی تھی بیٹی کے نصیب سے ڈرنے لگی تھی وہ اس زمانے کو دیکھ رہی تھی جب وہ دنیا مں نہ رہیں گے تو ہماری فائزہ کا خیال کون رکھے گا سب رشتے بدل جاتے ہیں کون بے سہارہ کو آ سینے لگاتا ہے کون کسی کو اپنا کہتا ہے کون دیکھے کا فائزہ کی بے بسی کو کون سمجھے گا فائزہ کے اشاروں کو کون میری بیٹی کو اپنی کہے گا 
ماں بہت روتی تھی بیٹیوں کے نصیب کی بیت فکر ہوتی ہے نا ماں باپ کو 
6 سال گزر گئے چھوٹی بہنوں کی شادی ہو گئی لیکن فائزہ  وہی گھر بیٹی خدا سے شکوے بھی چھوڑ دیئے رونا بھی چھوڑ دیا اس کو اب صرف %20 نظر آتا تھا مطلب کے بس دھندلے ہوئے چہرے نظر آتے تھے 
فائزہ تھی تو بہت خوبصورت لیکن بس نصیب بے وفا تھے 
وہ یوں اندھیرے میں اپنی زندگی گزارنے لگی بے بس ہو گئی ڈاکٹرز نے کہا تھا علاج تو ممکن ہے اگر کوئی اپنی آنکھیں اس کو دے دے 
اس زمانے میں کوئی کسی مرنے والے کو پانی کا گھونٹ نہیں پلاتا تو آنکھیں کون دے گا فائزہ  30 سال کی ہو چکی تھی ماں باپ بوڑھے ہو گئے تھے 
فائزہ کی فکر نے شاید ان کو زیادہ بوڑھا کر دیا تھا 
فائزہ کو بھی بلکل نظر آنا بند ہو چکا تھا 
اس کے سب خواب کسی دوور اندھیرے میں دفن ہوگئے اس کے سارے جذبات فنا ہو گئے فائزہ کی خوشیاں بس اتنی سی تھیں کے کوئی آ کر حال پوچھ لیتا تو فائزہ خوش ہو جاتی وہ جیسے زندگی کے دن گزار رہی تھی اسے دنیا میں کسی سے اب کوئی واسطہ نہیں تھا کسی نہ کسی سے دل کی بات کہہ سکتی تھی نہ کوئی سننے والا تھا 
ساتھ والے گھر میں شادی تھی فائزہ بس ڈھول کی تاپ کو سن کر ان کے گھر ہونے والی خوشیاں محسوس کر رہی تھی اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی ماں نے کہا جاو دیکھو بیٹا تمہارا باپ آیا ہو گا کتنی بار کہا ہے ٹائم پہ گھر آ جایا کر فائزہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دروازے کے پاس گئی دروازہ کھولا کے ایک لڑکے نے سلام کہا 
فائزہ نے گھبرا کر وعلیکم السلام کہا 
فائزہ نے پوچھا آپ کون 
وہ لڑکا بولا وہ جی میں ساتھ والے گھر مہمان آیا ہوں آپ کے گھر سے کچھ سامان لانے کے لیئے بیجھا ہے مجھے جو انہوں نے شاید آپ کی امی کو دیا تھا رکھنے کے لئے 
لڑکا تو فائزہ کی طرف دیکھتا رہا دل میں خیال آیا کتنی خوبصورت لڑکی ہے اللہ نے کتنا حسن دیا ہے اس کو 
فائزہ خاموش ہو گئ اور ماما کو آواز دی ماما جان باہر کوئی آیا ہے ماں نے دیکھا تو پہچان لیا ارے یہ تو نادیہ کا بیٹا ہے آ جاو بیٹا میں لے کر آتی ہو سامان 
لیکن  وقاص تو فائزہ کو دیکھتے جا رہا تھا وہ شاید اس کی خوبصورتی میں کہیں ڈوب چکا تھا لیکن انجان تھا اس حقیقت سے جو اس پہ قیامت گرانے والی تھی 
اس نے فائزہ سے کہا پلیز آپ مجھے پانی لا دیں گی فائزہ  نے آواز دی ماں یہ پانی مانگ رہے ہیں 
پہلے تو وقاص  نے سوچا بڑی کوئی بدتمیز لڑکی ماں کو آواز دے رہی خود پانی لینے نہیں گئی 
جب ماں پانی لے کر یہ تو بتایا سوری بیٹا یہ فائزہ ہے میری بیٹی اس کو نظر نہیں آتا
وقاص نے کہا  نظر نہیں آتا مطلب 
وقاص کی ماں نے کہا بیٹا اندھی ہے یہ دیکھ نہیں سکتی 
وقاص کو یقین نہیں آرہا تھا اتنی خوبصورت کے جیسے کوئی سمندر کی گہرائی میں چمکتے ہوئے موتی ہوں 
لیکن شاید کے وقاص ہار بیٹھا تھا خود کو فائزہ پہ 
گھر گیا شادی تقریب ختم ہوئی تو وقاص فائزہ کو دیکھنے کے لیئے کسی نہ کسی بہانے آ جایا کرتا تھا 
وقاص نے اپنی ماں سے بات کی کے مجھے فائزہ سے شادی کرنی ہے 
وقاص کی ماں نے غصے میں کہا بکواس نہ کرو شادی کرنی ہے جا دفعہ ہو جا یہاں سے وقاص  بضد رہا دن گزرتے گئے وقاص کی تڑپ بڑھتی گئی وقاص بس کیسے بھی اب فائزہ سے شادی کرنا چاہتا تھا 
وقاص نے کہا میں زہر پی لوں گا اگر میری شادی نہ کروائی تو ماں نے کہا کیسا بے شرم لڑکا ہے 
اس کے باپ سے بات کی تو باپ نے سمجھایا بیٹا وہ تمہارا خیال نہیں رکھ پائے گی وہ تمہارا سہارا نہیں بنے گی بلکہ تمہاری زندگی خراب کر دے گی 
تمہارا جنوں چند دنوں کا ہے بس حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کیوں کسی کی بیٹی کو برباد کرو گے ساتھ خود کو بھی لیکن وقاص کہاں کسی کی کوئی بات سننے والا تھا 
وقاص اپنا کوئی چھوٹا سا بزنس کرتا تھا
گھر والوں نے اس کا پاگل پن دیکھا اور مان گئے شادی کے لیئے فائزہ  کی ماں سے بات کی تو فائزہ  کی ماں نے کہا لیکن آپ کا بیٹا سب جانتے ہوئے بھی وقاص  کی ماں نے کہا اللہ نے اگر ان کا نصیب ایسا لکھا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں 
خیر شادی ہو گئی فائزہ  بہت ڈری ہوئی تھی اس کے دل میں ہزاروں سوال جنم لے رہے تھے وہ سوچ رہی تھی یا خدا پہلے جینے کی خواہش تھی تم نے سب کچھ ختم کر دیا اب مرنے کی خواہش تھی تو زندگی کی طرف لے آیئے ہو 
کیسے امتحاں تمہارے یا خدا 
وقاص کھانستے ہوئے کمرے میں آیا فائزہ خاموش بیٹھی رہی وقاص پاس ایا ہاتھ پکڑا فائزہ ڈر سی گئی وقاص نے کہا فائزہ ڈر لگ رہا ہے 
فائزہ خاموش رہی وقاص نے فائزہ کا ہاتھ اپنی آنکھوں کو لگایا اور کہنے لگا آج سے یہ آنکھیں تمہاری ہیں 
اٹھو اب چلو میرے ساتھ وقاص نے دھیمی سی آواز میں پوچھا کہاں جانا ہے 
وقاص نے کہا چلو وضو کریں پہلے میرے ساتھ شکرانے کے نوافل ادا کریں 
وقاص نے اپنے ہاتھ اس اس کے ہاتھ پاوں دھوئے وضو کروایا اور شکرانے کے نوافل ادا کیئے 
فائزہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کے خدا کر کیا رہا ہے 
وقاص نے نماز کے بعد فائزہ کی آنکھوں کو چوما اور کہا آج سے تم میری آنکھوں سے دیکھا کرو گی کبھی اس کے سر کے بال سنوارتا تو کبھی اس کے ہاتھوں کو چومتا 
باتیں کرتے ہوئے سو گیا ولیمہ رسم مکمل ہوئی 
سب رشتہ دار باتیں کر رہے تھے وقاص پاگل ہے زیادہ دن یہ شادی نہیں رہے گی دیکھنا 2 مہنے بعد ہی طلاق ہو جائے گی 
کچھ لڑکیاں وقاص کو یہ کہتے بھی سنی گئی کے اگر وقاص  انتظار کرتا میں شادی کروا لیتی وقاص سے لیکن وقاص کو بس فائزہ کی محبت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا 
وقاص اٹھتا ناشتہ بناتا اپنے لیئے فائزہ کے لیئے 
پھر پھول سی خوشبو سے جگاتا فائزہ کو نماز فجر ادا کرتے پھر ناشتہ ایک ساتھ کرتے وقاص فائزہ کو آہستہ آہستہ گھر کی ہر چیز کہاں رکھی ہے سب بتاتا فائزہ بھی سمجھنے لگ گئی تھی 
وقاص کا ایک گھنٹہ بھی فائزہ سے بات کئے بنا نہیں گزرتا تھا 
وہ کال کرتا حال پوچھتا پیار بھری باتیں کرتا 
1 سال ہوگیا تھا شادی کو فائزہ بہت خوش رہنے لگی تھی 
اب فائزہ گھر کے کام بھی کرتی تھی مدد کرواتی تھی وقاص کی فائزہ خدا کا شکر ادا کرتی تھی کیا خدا تم بہتر جانتے ہو ہم کو توں دے تو ناشکرے ہو جاتے ہیں چھین لے تو شکوے کرتے ہیں لیکن توں بہتر جاننے والا ہے 
کبھی چپکے سے آ کر سینے لگا لینا تو کبھی خاموشی میں ڈرا دینا دونوں میں بہت تھا 
فائزہ وقاص کے سینے پہ سر رکھ کر سوتی تھی ایک عادت سی ہوگئی تھی وہ وقاص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کہا کرتی تھی 
وقاص سنا ہے قیامت کے دن اللہ مجھے میری آنکھیں واپس دے گا 
لیکن اس دن کے دعا کرتی ہوں کے خدا و رسول کے بعد سب سے پہلے میں آپ کو دیکھوں میری آنکھیں سب سے پہلے آپ کو دیکھیں وقاص مسکرا دیتا تھا پاگل سی ہو تم پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہو 
ایک دن وقاص گھر پہ نہیں تھا فائزہ  چھت پہ تھی بارش ہو رہی تھی بہت زور سے فائزہ شاید چھت سے کپڑے اتارنے گئی تھی نصیب نے عجیب کھیل کھیلنا تھا درد شاید ابھی باقی تھے 
فائزہ چھت پہ تھی کے پاوں پھسلا اور چھت سے گر گئے بے ہوش ہو گئے محلے والوں نے ہسپتال پہنچایا وقاص کو کال کی وقاص پاگل سا ہوگیا وہ ہسپتال پہنچا ڈاکٹرز نے کہا دماغ میں چوٹ لگی ہے کچھ کہہ نہیں سکتے دعا کریں بس 
آپریشن کرنا ہو گا ایمرجنسی وقاص کی آنکھوں میں آنسو تھے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ڈاکٹر صاحب پلیز میری فائزہ کو بچا لیں ڈاکٹر نے حوصلہ دیا اور چلا گیا 
وقاص بے بس بیٹھا فائزہ کی تصویر نکالی چوم کر کہنے لگا فائزہ مجھے دغا نہ دینا مجھ سے بے وفائی نہ کرنا تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی دیکھو فائزہ کل ہم اپنا نیا گھر لے رہے ہیں فائزہ تم نے کہا تھا کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑو گی آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا یا اللہ مجھے میری فائزہ واپس دے دو میری فائزہ مجھ سے نہ لینا اس کی محبت کی تڑپ پہ شاید خدا کو بھی ترس آ گیا تھا 
4 گھنٹے کے آپریشن کے بعد ڈاکٹر باہر آئے بہت خوش تھے کہنے لگے مبارک ہو مسٹر شاید آپ کی بیوی پہلے دیکھ نہیں سکتی تھی آپریشن کے دوران ہم نے دیکھا کے  لینز ٹھیک نہیں تھی چھوٹے سے آپریشن سے ٹھیک کر دیئے ہیں شاید کے اب دیکھنے لگے ہوش آیا تو دو دن بعد آنکھوں سے پٹی اتاری تو اللہ نے اپنا معجزہ دکھایا اور فائزہ کو نظر آنے لگا وقاص نے فائزہ کو سینے سے لگا لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا 
ہمسفر وہی ہوتا ہے جو ہر حالات میں اپنے جیون ساتھی کا وفادار رہے


 

0 comments:

Post a Comment