دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب محکمہ اوقاف نے زبردستی میری تعیناتی شیخو پورہ کے امیر محلے کی جامعہ مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاوڈ سپیکر پے تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا. شومئی قسمت کے وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا.
نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا.بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ. جو سنتاتھا ہنستا تھا یا پھر اظہار افسوس کرتا تھا۔محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی۔ تنخواہ کا ایک معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو میری پوسٹنگ کا سن کے ایک آنکھ دبا کر بولا قبلہ مولوی صاحب، آپ کی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں.’ میں تو گویا زمین میں چھ فٹ نیچے گڑ گیا’ پھر اللہ بھلا کرے میری بیوی کا جس نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا کے امامت ہی توہے، کسی بھی مسجد میں سہی. اور میرا کیا ہے؟ میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی. پردے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا. اور پھر ہمارے کونسے کوئی بچے ہیں کے ان کے بگڑنے کا ڈر ہو۔ بیوی کی بات سن کر تھوڑا دل کو اطمینان ھوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا.
بچوں کا ذکر چھڑ ہی گیا تو یہ بتاتا چلوں کے شادی کے بائیس سال گزرنے کے باوجود اللہ نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا. خیر اب تو شکوہ شکایت بھی چھوڑ چکے تھے دونوں میاں بیوی. جب کسی کا بچہ دیکھ کر دل دکھتا تھا تو میں یاد الٰہی میں دل لگا لیتا اور وہ بھلی مانس کسی کونے کھدرے میں منہ دے کر کچھ آنسو بہا لیتی۔ سامان باندھ کر ہم دونوں میاں بیوی نے اللہ کا نام لیا اور لاہورجانے کے لئے ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہوگئے. بادامی باغ اڈے پے اترے اور ہیرا منڈی جانے کے لئے سواری کی تلاش شروع کی۔ ایک تانگے والے نے مجھے پتا بتانے پر اوپر سے نیچے تلک دیکھا اور پھر برقع میں ملبوس عورت ساتھ دیکھ کر چالیس روپے کے عوض لے جانے کی حامی بھری۔ تانگہ چلا تو کوچبان نے میری ناقص معلومات میں اضافہ یہ کہہ کر کیا کے
‘میاں جی، جہاں آپ کو جانا ہے، اسے ہیرا منڈی نہیں، ٹبی گلی کہتے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ میں ہم پہنچ گئے. دوپہر کا وقت تھا۔ شاید بازار کھلنے کا وقت نہیں تھا. دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا. وہ ہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں، میلے کرتوں کے غلیظ دامن سے ناک پونچھتے ننگ دھڑنگ بچے، نالیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پے مڈلاتی بے حساب مکھیاں،سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے اور ان سے بحث کرتی کھڑکیوں سے آدھی باہرلٹکتی عورتیں، فرق تھا تو صرف اتنا کے پان سگریٹ اور پھول والوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں۔ دوکانیں تو بند تھیں مگر ان کے پرانے بورڈ اصل کاروبار کی خبر دے رہے تھے۔ مسجد کے سامنے تانگہ کیا رکا، مانو محلے والوں کی عید ہوگئی۔ پتہ نہیں کن کن کونے کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل کر جمع ہونے لگیں.
ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پے اٹھا لیا. ’’ابے نیا مولوی ہے‘‘بیوی بھی ساتھ ہے. پچھلے والے سے تو بہتر ہی ہوگا’ کیا پتہ لگتا ہے بہن، مرد کا کیا اعتبار؟ ‘ہاں ہاں سہی کہتی ہے تو داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک،عجیب طوفان بدتمیز تھا۔ مکالموں اور فقروں سے یہ معلوم پڑتا تھا کے جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں، شرفاء کے محلے میں کوئی طوائف وارد ہوئی ہو۔ اس سے پہلے کے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا، خدا خوش رکھے غلام شبیر کو جومولوی صاحب، مولوی صاحب کرتا دوڑا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا. پتہ چلا کے مسجد کا خادم ہے اور عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی نہایت محنت اور دیانت داری سے ادا کر رہا تھا۔ بھائی طبیعت خوش ہوگئی اس سے مل کے، دبلا پتلا پکّی عمر کا مرد، لمبی سفید داڑھی،صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا،
کندھے پے چار خانے والا سرخ و سفید انگوچھا، پیشانی پے محراب کا کالا نشان، سر پے سفید ٹوپی اور نیچی نگاہیں،سادہ اور نیک آدمی اور منہ پے شکایت کا ایک لفظ نہیں، بوڑھا آدمی تھا مگر کمال کا حوصلہ و ہمّت رکھتا تھا ۔ سامان سنبھالتے اور گھر کو ٹھیک کرتے ہفتہ دس دن لگ گئے۔گھر کیا تھا دو کمروں کا کوارٹر تھا مسجد سے متصل۔ایک چھوٹا سا باورچی خانہ، ایک اس سے بھی چھوٹا غسل خانہ اور بیت الخلا اور ایک ننھا منا سا صحن. بہرحال ہم میاں بیوی کو بڑا گھر کس لئے چاہیے تھا۔بہت تھا ہمارے لئے، بس ارد گرد کی عمارتیں اونچی ہونے کی وجہ سے تاریکی بہت تھی۔ دن بارہ بجے بھی شام کا سا دھندلکا چھایا رہتا تھا۔ گھر ٹھیک کرنے میں غلام شبیر نے بہت ہاتھ بٹایا۔ صفائی کرنے سے دیواریں چونا کرنے تک۔ تھوڑا کریدنے پے پتا چلا کے یہاں آنے والے ہر امام مسجد کے ساتھ غلام شبّیرگھر کا کام بھی کرتا تھا۔ بس تنخواہ کے نام پے غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد ہی میں سوتا تھا۔یوں اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی
اور مسجد کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی۔ ایک بات جب سے میں آیا تھا، دماغ میں کھٹک رہی تھی۔ سو ایک دن غلام شبیر سے پوچھ ہی لیا۔ میاں یہ بتاؤ کے پچھلے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرا گزرا؟ وہ تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک طرف لے گیا کے بیگم کے کان میں آواز نہ پڑے میاں جی اب کیا بتاؤں آپ کو؟ جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی۔محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے۔ بس دل آ گیا ایک لڑکی پے۔لڑکی کے دلال بھلا کہاں جانے دیتے تھے سونے کی چڑیا کو۔پہلے تو انہوں نے مولانا کو سمجھانے کی کوشش کی، پھر ڈرایا دھمکایا لیکن مولانا نہیں مانے۔ایک رات لڑکی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی۔بادامی باغ اڈے پر ہی پکڑے گئے۔ظالموں نے اتنا مارا پیٹا کے مولانا جان سے گئے’. غلام شبّیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی۔
پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟’ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ غلام شبیر ہنسنے لگا۔کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی۔ پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے۔ بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب۔ اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے لاحول ولا قوّت الا باللہ ،کہاں اس جہنم میں پھنس گئے۔’ میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا‘۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھائیں۔ دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے ان کو قران پڑھا دیں باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں.’ غلام شبیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آئی۔ انہی شروع کے ایام میں ایک واقعہ ہوا۔
پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پے کسی نے دستک دی. غلام شبیر نے جا کے دروازہ کھولا اور پھر ایک کھانے کی ڈھکی طشتری لے کے اندر آ گیا۔ میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا ’نوراں نے کھانا بھجوایا ہے، پڑوس میں رہتی ہے‘ میں کچھ نا بولا اور نا ہی مجھے کوئی شک گزرا۔سوچا ہوگی کوئی اللہ کی بندی اور پھر امام مسجد کے گھر کا چولھا تو ویسے بھی کم ہی جلتا ہے۔بہرحال جب اگلے دو دن بھی یہ ہی معمول رہا تومیں نے سوچا کے یہ کون ہے جو بغیر کوئی احسان جتائے احسان کیے جا رہی ہے۔عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں ہی تھا جب غلام شبیر کو آواز دے کے بلایا اور پوچھا میاں غلام شبیر یہ نوراں کہاں رہتی ہے؟ میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کر اس کا شکریہ ادا کرآئے۔ غلام شبیر کے تو اوسان خطا ہو گئے یہ سن کر’ میاں جی ، بی بی نہیں جا سکتی جی وہاں،میں نے حیرانی سے مزید استفسار کیا تو گویا غلام شبیر نے پہاڑ ہی توڑ دیا
میرے سر پے‘ میاں جی ، اس کا پورا نام تو پتا نہیں کیا ہے مگر سب اس کو نوراں کنجری کے نام سے جانتے ہیں. پیشہ کرتی ہے جی!پیشہ کرتی ہے؟ یعنی طوائف ہے؟ اور تم ہمیں اس کے ہاتھ کا کھلاتے رہے ہو؟ استغفراللہ! استغفراللہ۔ غلام شبیر کچھ شرمسار ہوا میرا غصّہ دیکھ کر تھوڑی دیر بعد ہمّت کر کے بولا:میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی لوگ رہتے ہیں ان کے ہاتھ کا نہیں کھائیں گے تو مستقل چولھا جلانا پڑے گا جو آپ کی تنخواہ میں ممکن نہیں۔ یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا’ہم شریف لوگ ہیں غلام شبیر ،بھوکے مر جائیں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھائیں گے‘۔میرے تیور دیکھ کر غلام شبیر کچھ نہ بولا مگر اس دن کے بعد سے نوراں کنجری کے گھر سے کھانا کبھی نا آیا۔ جس مسجد کا میں امام تھا، عجیب بات یہ تھی کے اس کا کوئی نام نہیں تھا.
بس ٹبی مسجد کے نام سے مشہور تھی۔ ایک دن میں نے غلام شبیر سے پوچھا کے ‘‘میاں نام کیا ہے اس مسجد کا؟’’ وہ ہنس کر بولا۔ میاں جی اللہ کے گھر کا کیا نام رکھنا؟ پھر بھی؟ کوئی تو نام ہوگا، سب مسجدوں کا ہوتا ہے’’ میں کچھ کھسیانا ہو کے بولا‘‘ بس میاں جی بہت نام رکھے جس فرقے کا مولوی آتاہے، پچھلا نام تبدیل کر کے نیا رکھ دیتا ہے آپ ہی کوئی اچھا سا رکھ دیں.’’ وہ سر کھجاتا ہوا بولا. میں سوچ میں پڑ گیا۔ گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے؟ ‘‘کیا نام رکھا جائے مسجد کا؟ ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا۔ گناہوں کے کیچڑ میں چمکتا پاک صاف موتی۔’’ دل ہی دل میں میں نے مسجد کے نام کا فیصلہ کیا اور اپنی پسند کو داد دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں بیوی کھانا لگائے میری منتظر تھی ۔ اب بات ہوجائے قرآن پڑھنے والے بچوں کی، تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے،ملی جلی عمروں کے پانچ سے گیارہ بارہ سال کی عمر کے۔
تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے۔نہا دھو کے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کے آتے تھے۔ دو گھنٹے سپارہ پڑھتے تھے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے. کون تھے کس کی اولاد تھے؟ نہ میں نے کبھی پوچھا نا کسی نے بتایا لیکن پھر ایک دن غضب ہوگیا۔قرآن پڑھنے والے بچوں میں ایک بچہ نبیل نام کا تھا. یوں تو اس میں کوئی خاص بات نا تھی لیکن بس تھوڑا زیادہ شرارتی تھا۔تلاوت میں دل نہیں لگتا تھا۔ بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں لگا رہتا،میں بھی درگزر سے کام لیتا کے چلو بچہ ہے لیکن ایک دن ضبط کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس دن صبح ہی سے میرے سر میں ایک عجیب درد تھا. غلام شبیرسے مالش کرائی، پیناڈول کی دو گولیاں بھی کھائیں مگر درد زور آور بیل کی مانند سر میں چنگھاڑتا رہا. درد کے باوجود اور غلام شبّیر کے بہت منع کرنے پر بھی میں نے بچوں کا ناغہ نہیں کیا.
نبیل بھی اس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی شرارتیں کر رہا تھا۔ کبھی ایک کو چھیڑ کبھی دوسرے کو۔ جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گئیں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور میں نے پاس رکھی لکڑی کی رحل اٹھا کر نبیل کے دے ماری،میں نے نشانہ تو کمر کا لیا تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کے رحل بچے کی پیشانی پر جا لگی۔
0 comments:
Post a Comment