Monday, 31 October 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 11:00 am

حضور اکرم ؐ نے جب ایک گستاخ شاعر کی زبان کاٹنے کا حکم دیا - اسلامک گائیڈ آف لائف

مدنی دور کی بات ہے جب ایک گستاخ شاعر نے رسولِ خدا کی شان اقدس میں گستاخانہ اشعار لکھے۔اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور( ص) کے سامنے پھینک دیا.سرکار دوعالم نے حکم دیا کہ اس کی زبان کاٹ دو۔تاریخ لرزا گئی کہ وہ جو رحمت العالمین ہے جس نے طائف میں پتھر مارنے والوں کو دعائیں دیں! کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا رہا!

اس ذات عظیم کو مدینے میں آکے آخر ہو کیا گیا؟بعض صحابہ کرام نے عرض کی ‘یا رسول اللہ ﷺمیں اس کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کروں؟حضور ﷺنے فرمایا: نہیں، تم نہیں پوچھا پھر کون؟ تب رسولِ خدا ﷺنے حضرت علی رضی اللہ کی طرف دیکھا اور حکم دیا اس کی زبان کاٹدو۔مولا علی بوری بند گستاخ کو اٹھا کر شہر سے باہر نکلےحضرت قنبرؓ کو حکم دیا کہ جائیں میرا اونٹ لے کر آئیں۔اونٹ آیاحضرت ؓعلی نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھولی گستاخ شاعر کو بوری سے باہر نکالا اور 2000 درہم اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اونٹ پہ بیٹھایا اور فرمایا؛ بھاگ جاؤ! گستاخ انگشت بدنداں حضرت علی ؓکو دیکھ رہا ہے. فرمایا بھاگ جاؤ! ان سب کو میں دیکھ لونگا.اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے حیران رہ گئے کہ یا اللہ حضرت علیؓ نے تو رسول اللہ(ص) کی حکم عدولی کی ہے. لہذا شکایت لے کر رسول خدا کے پاس پہنچ گئے؛

یا رسول اللہ ﷺآپ نے اس گستاخ کی زبان کاٹنے کا حکم دیا تھا مگر علیؓ نے اسے 2000 درہم دیے اور آزاد کر دیا! محمد عربی ﷺمسکرائے اور فرمایا؛ علیؓ میری بات سمجھ گئے! مگر افسوس! یہ بات تمہاری سمجھ میں نہ آ سکی. وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دیے کہ؛ یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو! علی ؓنے تو کاٹی ہی نہیں؟ اگلے دن صبح فجر کی نماز پڑھنےجب سب مسجد پہنچے تو سب ورطہ حیرت میں ڈوب گے. کیا دیکھتے ہیں کہ وہ گستاخ شاعر وضو کررہا ہے! پھر وہ مسجد میں جا کر رحمت العالمین ﷺکے آگے مودبانہ اپنی جیب سے ایک تحریر نکال کر کہتا ہے؛ حضور پر نور آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں! یوں حضرت علیؓ نے ایک گستاخِ رسول کی گستاخ زبان کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔( بحوالہ: دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323 )


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 10:59 am

ہارٹ اٹیک کے خطرے کو کم کرنے کےلئے کونسی دوا استعمال نہیں کرنی چاہئے،جانیں - اسلامک گائیڈ آف لائف

امریکی پینل کا کہنا ہے کہ پہلے ہارٹ اٹیک یا فالج کو روکنے کے لیے اسپرین کا استعمال کم ہونا چاہیے۔امریکی پینل کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں کے خطرے کی زد پر 60 سال سے کم عمر بالغ افراد اگر روزانہ اسپرین کی ڈوز شروع کریں تو انہیں سنگین منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پینل کی گائیڈ لائنز اسپرین لینے والے یا دل کے دورے کے شکار افراد پر لاگو نہیں ہوگی۔ امریکی پینل کا کہنا ہے کہ پہلے ہارٹ اٹیک یا فالج کو روکنے کے لیے اسپرین کا استعمال کم ہونا چاہیے۔امریکی پینل کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں کے خطرے کی زد پر 60 سال سے کم عمر بالغ افراد اگر روزانہ اسپرین کی ڈوز شروع کریں تو انہیں سنگین منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پینل کی گائیڈ لائنز اسپرین لینے والے یا دل کے دورے کے شکار افراد پر لاگو نہیں ہوگی۔


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 10:58 am

شادی کیلئےلڑکی کی عمر کی کم از کم حد مقرر،اسلامی نظریاتی کونسل کا بڑا فیصلہ آگیا - اسلامک گائیڈ آف لائف

 وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے کہا ہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے) 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے سے لڑکیوں کو کم سے کم بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ مشاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایف ایس سی نے ایک پٹیشن کو مسترد کر دیا

اور واضح طور پر قرار دیا کہ اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی ایف ایس سی بینچ نے فاروق عمر بھوجا کی جانب سے سی ایم آر اے کے سیکشن 4، 5، 6 کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کی۔جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ ’درخواست کی جانچ پڑتال کے بعد ہمارا خیال ہے کہ پٹیشن غلط فہمی پر ہے، اس لیے اسے مسترد کی جاتی ہے‘۔10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ایف ایس سی نے کہا کہ جن سیکشنز میں شادی کے لیے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے کم ازکم عمر کی حد مقرر کی گئی ہے وہ غیر اسلامی نہیں ہے۔سی ایم آر اے کے سیکشن 4 کے تحت بچے کی شادی کرنے پر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے

جو چھ ماہ تک بڑھ سکتی ہے اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے جبکہ سیکشن 5 اور 6 کسی بچے کے نکاح کی سزا اور بچوں کی شادی کی اجازت دینے یا فروغ دینے کی سزا کی وضاحت کرتے ہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ تعلیم کی اہمیت خود وضاحتی ہے اور تعلیم کی ضرورت ہر ایک کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے، اسی لیے اسلام نے تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان کے لیے لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ’علم کا حصول ہر مسلمان پر لازم ہے۔عدالت نے کہا کہ ’حضور ﷺ کی طرف سے ایسی زبان کا استعمال ایک مسلم معاشرے میں اور ہر مسلمان کے لیے ہر حال میں تعلیم کی فرضیت کو واضح کرتا ہے کیونکہ تعلیم ہر انسان کی شخصیت کی نشوونما کے لیے بنیادی عوامل میں سے ایک ہے‘۔فیصلے میں کہا گیا

کہ ایک بہترین شادی کے لیے نہ صرف جسمانی صحت اور معاشی استحکام وغیرہ ضروری عوامل ہیں بلکہ ذہنی صحت اور فکری نشوونما بھی یکساں اہم ہیں جو تعلیم کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ ’تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ کسی فرد کی ترقی اور اس کے نتیجے میں کسی بھی قوم کی آنے والی نسل کے لیے اہم ہے‘۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’ذاتی سطح پر لڑکی کے لیے یا کسی بھی جنس کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا عنصر حفظ العقل کے تصور کے تحت آتا ہے یعنی عقل کی حفاظت اور فروغ جو شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے‘۔اسلام کی تعلیمات کے مطابق لڑکی یا بیٹی کو بہترین تعلیم دینا انسان کے بہترین اعمال میں سے ایک ہے اور یہ جنت کی ضمانت ہے۔فیصلے میں کہا گیا

کہ اس کی اہمیت کی وجہ سے امام بخاری رحمت اللہ علیہ نے اپنی مشہور حدیث کی کتاب ‘جامعہ البخاری شریف‘ کے شروع میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر تقریباً ایک پورا باب تشکیل دیا۔فیصلے میں اشارہ دیا گیا کہ بہت سے اسلامی ممالک ہیں جہاں اس قسم کا قانون موجود ہے جس میں مرد اور عورت کے لیے شادی کی کم از کم عمر مقرر کی گئی ہے جیسے کہ اردن، ملائیشیا، مصر اور تیونس وغیرہ


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 10:56 am

سونے سے پہلے گانے سننے سے نیند برباد ہوجاتی ہے، ماہرین طب کا حیران کن انکشاف - اسلامک گائیڈ آف لائف

 امریکی ماہرین نے دو الگ الگ مطالعات سے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ سونے سے پہلے گانے اور موسیقی سنتے ہیں انہیں ٹھیک سے نیند نہیں آتی۔عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سونے سے کچھ دیر پہلے مدھر موسیقی اور نغمے سن لیے جائیں تو اچھی اور پرسکون نیند آتی ہے لیکن اس تحقیق سے سامنے آنے والے نتائج اس خیال کے بالکل برعکس ہیں۔

بیلر یونیورسٹی، ٹیکساس کے ڈاکٹر مائیکل اسکیولن اور ان کے ساتھیوں نے پہلے مطالعے میں 199 رضاکار بھرتی کیے جن کی اوسط عمر تقریبا 36 سال تھی۔ دوسرے مطالعے میں 50 رضاکار شامل ہوئے جن کی اوسط عمر 21 سال کے لگ بھگ تھی۔دونوں مطالعات میں رضاکاروں کو سونے سے کچھ دیر پہلے ان کے پسندیدہ گانے اور دھنیں سننے کے لیے کہا گیا، جس کے بعد ان میں نیند کے دوران دماغی سرگرمیوں اور نیند کی کیفیت کا جائزہ لیا گیا۔گانے اور دھنیں سن کر سونے والے رضاکاروں میں سے اکثر نے کہاکہ جاگنے کے بعد انہیں یوں لگا جیسے وہ گہری نیند نہ سوئے ہوں۔بعض رضاکاروں نے یہاں تک بتایا کہ جو موسیقی انہوں نے سونے سے کچھ دیر پہلے سنی تھی، وہ سوتے دوران بھی انہیں اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ہوئی جس سے ان کی نیند متاثر ہوئی اور آنکھ کھل گئی۔

ڈاکٹر اسکیولن نے اعتراف کیا ہے کہ یہ نتائج عام خیالات کے بالکل برعکس ہیں جنہیں مزید کھنگالنے کی ضرورت ہے۔


 

Monday, 24 October 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 2:23 pm

ایک گلاس گرم پانی کے ساتھ 3 کھجور کھانے کے فوائدکروڑ روپے خرچ کرکے بھی نہیں مل سکتے - اسلامک گائیڈ آف لائف

 یہ وہ پھل ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں متعدد بار آیا ہے. حضرت مریم کو دوران حمل کھجوریں کھانے کی ہدایت کی گئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پھل انتہائی مقوی غذا ہے. حکماء اسے کئی اعتبار سے دیگر پھلوں پر فوقیت دیتے ہیں. شہد اور کھجور کا مزاج گرم ہے اس وجہ سے یہ موسم سرما میں بہت مفید ہے.۔۔جاری ہے۔یہ دمے کے مریضوں کیلئے بہترین غذا کا درجہ رکھتی ہے اور ساتھ ہیہاضمہ بھی درست رکھتی ہے

خون صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ جسم میں تازہ خون بھی پیدا کرتی ہے ۔ شہد اور کھجور بلغم کا خاتمہ اور پھیپھڑوں کو بھی طاقت بخشتی ہے. جسم کے ساتھ ساتھ دماغ‘ اعصاب‘ قلب ‘معدے اورجسم کے پٹھوں کیلئے بھی بے حد مفید ہے.جن لوگوں کا وزن کم ہو یا خون کی کمی ہو انہیں پابندی کے ساتھ کھجور اور شہد کا استعمال کرناچاہئے. یہ امراض قلب میں بھی فائدہ مند ہے اس کے معدنی نمکیات دل کی دھڑکن کو منظم کرتے ہیں –اس کے بعض اجزاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خون بننے میں مدد دیتے ہیں کھجور کے ریشے‘ میگنیشم‘ کیلشیم کے حصول کا عمدہ ذریعہ ہے اور ان میں پوٹاشیم کی بھی وافر مقدار موجود ہوتی ہے.کھجور‘ فیٹ‘ سوڈیم اور کولسٹرول فری ہے اور صحت کے بارے میں حساس افراد کیلئے بہترین معیاری غذا ہے. طب نبویﷺ کے

مطابق عجوہ کھجور کی خاص ادویائی اہمیت ہے. یہ خون میں کولیسٹرول کی سطح گھٹاتی اور انجائنا کے مریضوں کو فائدہ پہنچاتی ہے. خصوصاً مدینہ منورہ کی عجوہ کھجوریں کولیسٹرول لیول گھٹانے میں انتہائی مفید ثابت ہوتی ہیں.کولیسٹرول کی سطح گھٹانے کا ایک نسخہ یہ ہے کہ 42 عجوہ کھجوروں کی گٹھلیاں پیس کر اور باریک سفوف بنا کر ایک مرتبان میں رکھ لیں روزانہ نہارمنہ استعمال کریں . ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک چائے کا چمچہ خالص شہد بھر کے اب اس میں کھجور کی 2 گٹھلیوں کا سفوف ملالیں اور 21 دن تک صبح نہار منہ استعمال کریںاور آدھے گھنٹے بعد ناشتہ کرلیں.۔۔جاری ہے۔شہد اور کھجور کے استعمال سے انجائنا سے بچاؤ بھی ممکن ہے. عجوہ کھجور کے 21 دانے لیں اور اس سے گٹھلیاں نکالنے کے بعد پیس کر باریک سفوف بنالیں.

پھر اس سفوف کو دوبارہ اسی خالی جگہ میں بھردیں جہاں سے گٹھلیاں نکالی گئی تھیں ان میں سفوف بھر دیں اور سفوف کی ذرا سی بھی مقدار باقی نہ بچے اب انہیں 21 روز تک باقاعدگی سے استعمال کریں انشاء اﷲ تعالیٰ افاقہ ہوگا.اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے شہد میں بھی اتنی افادیت رکھی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا. شہد کمزور لوگوں کیلئے اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے جس کا سردیوں میں مستقل استعمال انسان کو چار چاند لگا دیتا ہےاور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مردانہ کمزوری دور کرنے کیلئے رات کو سونے سے قبل دو چمچ شہد کے گرم دودھ میں ملا کر پینے سے مردانہ کمزوری دور ہوجاتی ہے اور اگر اس کے ساتھ کھجور کا استعمال کیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہوگا.معدہ ،جگر ‘ مثانہ میں گرمی ‘ ورم اور سوزش پیدا ہو ہوجائے تو آپ صبح نہار منہ ایک گلاس

میں 2شہد کے چمچ ملا کر پئیں انشاء اﷲ تعالیٰ فائدہ ہوگا. بچوں اور بڑوں کو اکثر دائمی نزلہ و زکام اور کھانسی کی شکایت رہتی ہے۔۔جاری ہے۔جوکہ بظاہر ایک چھوٹی سی بیماری نظر آتی ہے جسے اکثر چھوٹے بڑے نظرانداز کردیتے ہیں اور یہ مرض بعد میں شدت اختیار کرجاتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کو سر درد‘ جسم میں کمزوری‘ آنکھوں سے پانی کا بہنا


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 2:21 pm

دل کا مرض کبھی نہیں ہوگا اور خون کی شریانیں بھی بہترین کام کریں گی بس نبی کریم ؐکی اس پیاری سی سنت - اسلامک گائیڈ آف لائف

 خلال کرنا سنت نبوی ہے اور اس پر عمل کرنا آپ کو متعدد جان لیوا امراض سے بچا سکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔تحقیق کے مطابق یہ تو پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے کہ مسوڑوں کے امراض ذیابیطس، امراض قلب، خون کی شریانوں کے مسائل یا جوڑوں کے درد کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

تاہم خلال کرنےکو عادت بنالیناآپ کو ڈاکٹروں سے مکمل طور پر چھٹکارہ اور صحت مند زندگی گزارنے میں بڑی مدد دے سکتا ہے۔اس تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ خلال کرنا منہ کے اندر جرثوموں کی مقدار کم کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے منہ میں ایک اچھی مہک بھی پیدا کرتا ہے اور منہ میں سوجن کا امکان بھی ہوجاتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ جب مسوڑوں میں سوجن نہیں ہوگی تو ان سے خون نکلنے کا امکان بھی کم ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ منہ کی صحت برقرار رکھنا بیکٹریا کو دوران خون میں جانے سے روکتا ہے اور اس طرح متعدد جان لیوا امراض سے تحفظ ملتا ہے۔اسی طرح خلال نہ کرنا سانس میں بو کا امکان بڑھاتا ہے کیونکہ غذا کے ذرات دانتوں کے درمیان پھنس کر سانس میں بو بڑھانے والے بیکٹریا کی تعداد بڑھاتے ہیں جو کے بعد میں آپ کے دانتوں میں کیڑا اور دوسری کئی بیماریوں کا مرض بنتے ہیں۔

اس سے پہلے امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن نے بھی اپنی ایک تحقیق میں بتایا تھا کہ درمیانی عمر میں لوگوں کو دانتوں کے مسائل کا سامنا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ خلال نہیں کرتے۔امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن کے مطابق دن میں کم از کم ایک دانتوں کا خلال کرنے سے دانتوں کے اس درمیانی خلاءمیں بیکٹریا کو ہٹانے میں مدد ملتی ہے جہاں ٹوتھ برش پہنچ نہیں پاتا۔دوسری صورت میں مسوڑوں کے امراض اور کیڑے لگنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 2:20 pm

پیٹ کی گیس اب کبھی نہیں ہو گی ! ہر صبح صرف ایک گلاس پئیں اور ہمیشہ صحت مند رہیں - اسلامک گائیڈ آف لائف

 دارچینی اور شہد کوملاکر کئی بیماریوں کوٹھیک کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور چین میں یہ طریقہ بہت زیادہ معروف رہا ہے۔ یہ دونوں اجزاءصدیوں ہی سے استعمال کئے جارہے ہیں اور ان کی افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ان دونوں اجزاءکو مکس کرکے آپ مختلف امراض کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ کن کن بیماریوں کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔دل کے مریض دونوں کو مکس کریں اور ناشتہ میں استعمال کرنے سے دل کی بند شریانیں کھلنے لگتی ہیں۔اس کی وجہ سے کولیسٹرول بھی کم ہوگا اور ساتھ ہی دل بھی مضبوط ہوگا۔وڑوں کا دردایک گلاس گرم پانی میں دوکھانے کے چمچ شہد اور ایک کھانے کا چمچ دارچینی ڈالیں۔ اسے صبح اور شام میں پینے سے جوڑوں کادرد ٹھیک ہوگا۔ پتے کی انفیکشن ایک گلاس گرم پانی میں دو بڑے چمچ دارچینی اور ایک بڑاچمچ شہد ڈالیں اور روزانہ پئیں۔اس کی وجہ سے آپ کے پتے کی انفیکشن دور ہوگی اور وہ صحت مند رہے گا۔کولیسٹرولایک کپ میں دو بڑے چمچ شہد اور تین چمچ دارچینی ڈال کر پینے سے کچھ ہی دیر بعدکولیسٹرول میں10فیصد کمی ہوگی۔سردیاگرآپ کو سردی لگ جائے تو ایک چمچ شہد میں ایک چوتھائی چمچ دارچینی ڈال کرکھائیں،

تین دن تک استعمال کرنے کے بعد آپ کی سردی ٹھیک ہوجائے گی۔ مدافعتی نظامان دو اجزاءکے باقاعدہ استعمال سے آپ کا مدافعتی نظام مضبوط ہوگااورکئی خطرناک بیماریاں دوررہیں گی۔وزن میں کمی اگر آپ بڑھتے وزن کر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو ہر روز ناشتے سے کم از کم آدھ گھنٹہ قبل دارچینی اور شہد کی چائے پئیں۔دارچینی کو پانی میں ابالیں اور شہد ڈالکر ایک بار ابالا دیں،اب اسے ناشتے سے 30منٹ قبل پئیں۔کچھ ہی دن میں آپ اپنے وزن میں کمی دیکھیں گے۔ بالوں کے لئےاگر آپ کے بال گررہے ہیں یا آپ گنجے پن کاشکار ہیں تو ایک کھانے کاچمچ زیتون کا تیل ، ایک کھانے کا چمچ شہد اور ایک چمچ دارچینی لیں۔ اس محلول کو سر میں لگائیں اور15منٹ بعد سر دھولیں۔کچھ ہی دن میں آپ بہترین نتائج دیکھیں گے


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 2:19 pm

اونٹنی کے دودھ کا ایسا فائدہ کہ آپ بھی آزمائے بغیر رہ نہیں سکیں گے - اسلامک گائیڈ آف لائف

اونٹنی کا دودھ صدیوں سے مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی حصوں میں طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ اس میں موجود کم چکنائی (فیٹ) اور بنیادی غذائی اجزا کی کثرت ہے۔اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اونٹنی کا دودھ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے،

بالخصوص ایسے افراد میں جن کا جسم لیکٹوز (یعنی مِلک شُوگَر) قبول نہیں کرتا کیونکہ اونٹنی کا دودھ عام دودھ کی نسبت زیادہ آسانی سے ہضم کیا جا سکتا ہے۔حالیہ برسوں میں طبی سائنس نے اونٹنی کے دودھ کے حیران کن فوائد پر روشنی ڈالی ہے۔یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں میں اونٹنی کے دودھ کے انسانی صحت اور غذائیت پر فائدہ مند اثرات پر یقین رکھا جاتا ہے۔متعدد تحقیقی رپورٹس میں اس دودھ کو سپر فوڈ قرار دیا گیا ہے جو جراثیم کش، اینٹی آکسائیڈنٹ اور اینٹی ہائپر ٹینسیو (فشار خون کی روک تھام کرنے والا) ہوتا ہے۔مگر محققین کی توجہ جس چیز نے اپنی توجہ مرکوز کروائی،

وہ جانوروں اور انسانوں پر کلینکل تحقیقی رپورٹس میں اونٹنی کے دودھ سے ذیابیطس سے جڑے عناصر جیسے بلڈ شوگر کنٹرول سے لے کر انسولین کی مزاحمت کے حوالے سے فوائد کا ثابت ہونا ہے۔تو کیا واقعی یہ دودھ ذیابیطس کی روک تھام یا علاج کے حوالے سے مفید ہے؟کہا جاتا ہے کہ اونٹوں کو 3 سے 4 ہزار سال پہلے انسانوں نے پالتو بنایا تھا، یہ جانور متعدد منفرد خصوصیات کا مالک ہے، جیسے اپنے کوہان میں 36 کلو تک چکنائی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت، 100 میل تک چلنے اور 49 ڈگری درجہ حرارت میں بغیر پانی کے لگ بھگ ایک ہفتے تک زندہ رہنے کی صلاحیت وغیرہ۔اونٹ ان جانوروں میں شامل ہے جو غذا کو ہضم کرنے سے قبل خمیر بناتے ہیں اور بہت کم سے بھی بہت زیادہ حاصل کرتے ہیں۔یہ متعدد اقسام کے پودوں کو کھاتے ہیں

اور ان کو گائے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے ہضم کرتے ہیں۔اونٹنی کے دودھ پر تحقیق کا سلسلہ 3 سے 4 دہائی قبل شروع ہوا تھا اور بظاہر گائے اور اس دودھ میں چکنائی، پروٹین، لیکٹوز اور کیلشیئم کی سطح قابل موازنہ ہے مگر زیادہ گہرائی میں جانے سے اس دودھ کے منفرد فوائد سامنے آئے جیسے وٹامن سی کی بہت زیادہ مقدار، اہم غذائی منرلز اور زیادہ آسانی سے ہضم ہونے کی صلاحیت وغیرہ اسے گائے کے دودھ سے زیادہ بہتر بناتے ہیں۔کچھ ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ جن بچوں کو گائے کے دودھ سے الرجی ہوتی ہے وہ اونٹنی کا دودھ بغیر کسی مسئلے کے استعمال کرسکتے ہیں۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق اجزا کے لحاظ سے اونٹنی کا دودھ ماں کے دودھ سے کافی ملتا جلتا ہے، دونوں میں پروٹین ہوتی ہیں اور وہ اجزا نہیں ہوتے جو دودھ سے الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

یو اے ای میں امپرئیل کالج لندن ڈائیبیٹس سینٹر کے ماہرین نادر لیسان اور ایڈم بکلے نے بتایا کہ غذائی معیار سے قطع نظر اونٹنی کا دودھ ذیابیطس سے بچاؤ کی خصوصیات سے بھی لیس ہوتا ہے۔ان دونوں نے انسولین کے ردعمل پر اونٹنی کے دودھ کے اثرات کا ایک کلینکل ٹرائل بھی کیا۔یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود کی ایک حالیہ لیبارٹری تحقیق میں ذیابیطس کے حوالے سے اونٹنی کے دودھ کے اثرات پر مزید روشنی ڈالی گئی۔ایسے ممالک جہاں یہ دودھ آسانی سے دستیاب ہے وہاں اس کے فوائد پہلے ہی نظر آرہے ہیں۔مثال کے طور پر شمالی بھارت میں اونٹ پالنے والی برادری پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ باقاعدگی سے اونٹنی کا دودھ پیتے ہیں

ان میں ذیابیطس کی شرح صفر فیصد ہوتی ہے۔عالمی سطح پر اونٹنی کے دودھ کی پروڈکشن میں 1961 سے اب تک 4.6 گنا اضافہ ہوچکا ہے جس سے روایتی خطوں سے ہٹ کر بھی اس کے استعمال کی مقبولیت کا عندیہ ملتا ہے۔یورپی یونین میں بھی ‘کیمل ملک پراجیکٹ’ کی کوششوں کو سپوٹ کیا جارہا ہے جبکہ بحیرہ روم کے خطے میں بھی اس کے حوالے سے دلچسپی بڑھی ہے۔چین سے لے کر آسٹریلیا میں اونٹنی کے دودھ سے بنی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا میں مختلف کمپنیوں کی جانب سے اس کی پروڈکشن بڑھانے پر کام ہورہا ہے۔مگر اب بھی یہ گائے کے دودھ سے بہت مہنگا ہے اور متعدد افراد اسے روزانہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ابھی کمرشل پراڈکٹ کی شکل میں اونٹنی کے دودھ کے فوائد کے تسلسل کے حوالے سے بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔

اس دودھ کا معیار کا انحصار مختلف عناصر جیسے لوکیشن اسٹیج، خطہ، اونٹوں کی غذائی عادات وغیرہ پر ہوتا ہے تو ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ان سے دودھ پر کس حد تک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مگر محمد ایوب اور ساجد مقصود نے اپنی حالیہ تحقیق میں کہا کہ اونٹنی کا دودھ ذیابیطس کے نئے علاج کے لیے اہم ترین ثابت ہوسکتا ہے۔مگر ذیابیطس کے جو مریض اس دودھ کو آزمانا چاہتے ہیں انہیں کیا باتیں ذہن میں رکھنی چاہیے؟سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس دودھ کو ابالے بغیر پینے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ ای کولی اور دیگر جراثیم جسم میں جاکر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اسی طرح اگرچہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ بلڈ شوگر کنٹرول کو بہتر اور ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں میں انسولین کی ضرورت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

مگر ماہرین نے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے انسولین کا متبادل مت سمجھیں۔اب تک تحقیقی رپورٹس میں یہ ضرور عندیہ ملا ہے کہ یہ دودھ ذیابیطس کے خلاف مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگر اب بھی اس بارے میں بہت کچھ جاننا باقی ہے


 

Tuesday, 18 October 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 4:31 pm

ایک خوبرولڑکی سپر مارکیٹ میں اپنے جسم کی نمائش کر رہی تھی اور ملک الم وت آپہنچا،سبق آموز واقعہ - اسلامک گائیڈ آف لائف

 ایک نوجوان لڑکی ایک سپر مارکیٹ میں اپنے جسم کی نمائش کرتے ہوئے فتنہ انگیز انداز میں جارہی تھی۔ اس کے انداز میں ایسی خود نمائی اور خود ستائی تھی جیسے دنیا اسی کیوجہ سے پیدا کی گئی ہو… وہاں سے ایک نیک اور صالح نوجوان گزر رہا تھا اس نے ازراہ ہمدردی کہا:” میری بہن ! اپنی اس روش سے باز آجاؤ۔ اگر اسی حالت میں ملک الموت تمہارے پاس آپہنچا تو، اللّٰہ کو کیا جواب دو گی؟

” اس کے جواب میں وہ مغرور لڑکی کہنے لگی..! “اگر تم میں جرات ہے تو ابھی اپنا موبائل نکالو اور اپنے رب سے کال ملاؤ کہ وہ ملک الموت کو بھیجے۔” وہ نوجوان کہتا ہے کہ :” اس نے ایسی ہولناک بات کہی تھی کہ مجھے ڈر ہواکہیں اس بازار کو ہی نہ ہم پر الٹا دیا جائے۔” میں ڈرتا ہوا جلدی سے وہاں سے نکلا۔ جب میں بازار کے کنارے پر پہنچا تو میں نے اپنے پیچھے چیخ وپکار اور آہ وبکا کی آوازیں سنیں ۔ میں وآپس مڑا تو دیکھا کہ ایک جگہ لوگ اکھٹے ہیں، یہ وہی جگہ تھی جہاں میری اس لڑکی سے بات ہوئی تھی۔ میں وہ منظر دیکھ کر ٹھٹک گیا۔وہ لڑکی ٹھیک اُسی جگہ پر مردہ حالت میں پڑی تھی، جہاں اس نے ملک الموت کو بلانے کا چیلنج کیا تھا۔ میں تو اس چیلنج کے بعد فوراً وہاں سے نکل گیا تھا،

لیکن لڑکی اسی وقت منہ کے بل گری اور دم توڑ دیا۔کیونکہ ملک الموت آپہنچا تھا…! (آئین القلوب، مصطفیٰ کامل) قارئین کرام! یہ واقعہ بالکل سچا ہے اور ایک عرب ملک میں پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کو قریباً بارہ پندرہ سال گزرے ہونگے، جب یہ رونما ہوا تو اس کی بازگشت مقامی اخبارات اور مجالس میں سنائی دی تھی.. “بعض اوقات انسان تکبر اور جوانی کے نشے میں یا دولت واقتدار کے گھمنڈ میں بےحد غلط باتیں منہ سے نکال دیتا ہے، اسے معلوم نہیں ہوتا کہ عین ممکن ہے وہ قبولیت دعا کا وقت ہو۔” اور اس کے الفاظ پر رب کی طرف سے پکڑ بھی ممکن ہے، اس لئے ہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالنی چاہئے… “دعاؤں کی قبولیت کے سنہرے واقعات” سے ماخوذ..


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 4:30 pm

”گناہ یا نکاح“ - اسلامک گائیڈ آف لائف

ماں میں جلد شادی کرنا چاہتا ہوں گناہ سے بچنا چاہتا اپنا آدھا ایمان مکمل کرنا چاہتا ہوں تم کیوں نہیں میری جلد شادی نہیں کرتی ؟ میں ایک عام انسان ہوں 26 سال میری عمر ہے اور میرا گھرانہ مذہبی ہے جہاں نماز روزہ دین کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر یہ اہمیت صرف نماز روزہ تک ہی ہے جو حکم اسکے علاوہ ہے وہ ہمارے خاندان میں پورتے نہیں ہوتے۔

میں نے سکول کالج یونیورسٹی سے لے کر ہر ادارے میں اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کی اللہ کی طاقت سے سے کوشش کی میرے دوست گرل فرینڈز بناتے تھے برے کام کرتے تھے ڈیٹیں مارتے تھے مگر میں نے ہمیشہ سوچا میں یہ سب کام حلال طریقے سے کروں گا جب میری عمر 24 سال ہوئی تو مجھے شدید شادی کی طلب ہونے لگی مجھے اپنے آپ کو برائی سے بچانا شدید مشکل ہوگیا میں نے اپنے گھر والوں کو کہنا شروع کیا اب وقت آگیا ہے میری شادی کر دیں میں نے پڑھائی مکمل کر لی ہے جاب بھی کرتا ہوں ایک میڈیا چینل میں مگر میرے گھر والوں نے شدید اعتراضات اٹھانے شروع کئے ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے میں نے انکو قرآن احادیث سے ریفرنس دئے مگر انہوں نے اسکو یہ کہ کر پرے کر دیا باقی اسلام کی باتیں بھی مانوں اور ایک دن میری ماں نے بتایا میں نے قرآن کا ترجمعہ پورا پڑھ لیا میں نے کہا ایسا پڑھنے کا فائدہ کیا جس پر عمل نہیں کرنا۔

قرآن میں لکھا ہے بالغ ہوتے شادی کرو حدیث میں آتا ہے اگر بالغ ہونے کے بعد ماں باپ شادی نا کریں اولاد گناہ کریں تو سارا گناہ ماں باپ کو ہوگا اولاد کو نہیں۔۔۔۔جاری ہے انٹرنیٹ ٹی وی پر فحاشی کا بازار عام ہے دوستوں کے ساتھ دیکھتا ہوں وہ لڑکیوں میں انجوائے کر رہے ہیں بازاروں میں لڑکیوں پر نظر پڑ جائے باریک کپڑے جسم ٹائٹ کیسے بچاؤں اپنے آپ کو ۔ میں چڑ چڑا ہوتا جا رہا ہوں گھر والے کہتے بتمیز ہو گیا ہے مگر انکو سمجھ نہیں آتی یہ بتمیزی کیوں ہوتی ۔ میرے والد 35 ہزار کماتے ہیں 3 بہن بھائیوں سمیت پورا گھر چلاتے ہیں تو کیا میں 25 ہزار میں اپنی بیوی کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتا ؟مگر میری کوئی سنتا نہیں کہتے ہیں ابھی عمر ہی کیا ہے 26 سال صرف اور شادی کا نام 32 سال کی عمر سے پہلے نا لینا۔ میں کیسے سمجھاؤں نوجوانوں کو ترقی کرنے کے لئے سکون کا ماحول چاہئے اور اللہ نے قرآن میں کہاں ہے

میاں بیوی ایک دوسرے سے سکون حاصل کرو کہاں گئے میرے اللہ کے احکامات اور میرے نبی ﷺ کی تعلیمات کیا یہ صرف نعرے مارنے کے لئے ہے کہ ہم عاشق رسول ہیں مگر عمل کی دفعہ زیرو۔۔۔۔۔۔جاری ہے بہت مشکل سے جا کر 1 سال لڑ کر ماں باپ کو منایا رشتہ کرو کچھ حامی بھری انہوں نے بھی ذلیل کر کر کے مگر اسی دوران میرے دادا ابو کا انتقال ہوگیا اور انکے انتقال کے 25 دن بعد میں نے کہا میرا رشتہ کرو کہتے تمکو احساس ہے ابی فوتگی ہوئی میں نے کہا اسلام کہتا ہے 3 دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ہوتا کہنے لگے جب ہم مریں گے اسکا مطلب تم بھنگڑے ڈالو گے۔ سمجھ آیا مجھے یہ سب باتیں صرف شادی نا کا کرنے کا بہانہ ہیں کہیں ہمارا بیٹا بہو کے پیار میں پاگل ہو کر ہاتھ سے نا نکل جائے اور کوئی وجہ نہیں۔۔۔جاری ہے سوچتا ہوں کہ اب اگر میں برائی کی طرف مائل ہو گیا تو کون زمہ دار ہوگا میرے ماں باپ یا پھر یہ معاشرہ میڈیا سیاستدان جنہوں نے زنا آسان کر دیا ہے

مگر شادیاں مشکل کر دی ہیں کیسے اللہ کی برکت نازل ہوگی اس ملک پر۔کاش ماں باپ سمجھ جائین یہ دجالی فتنے کا دور ہے ایمان بچانا بہت مشکل اسی لئے کہتا ہوں نکاح عام کرو ذنا مشکل کرو۔


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 4:29 pm

غریب مچھیرے پر قسمت مہربان، ایک ہی مچھلی نے لکھ پتی بنا دیا،جانیں مزید - اسلامک گائیڈ آف لائف

 بھارت میں مچھیروں کے ہاتھ ایک دیوہیکل تیلیا بھولا مچھلی لگ گئی جس کی لمبائی تقریباً 7 فٹ اور وزن 75 کلو گرام تھا۔بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست مغربی بنگال کے 24 پرگنہ میں پانچ ماہی گیروں کی ایک ٹیم سندرین کی ندیوں میں ماہی گیری میں مصروف تھی کہ ان کے ہاتھ اچانک دیوہیکل تیلیا بھولا مچھلی لگ گئی۔

تیلیا بھولا مچھلی کی لمبائی تقریباً 7 فٹ اور وزن تقریباً 75 کلو گرام بتایا گیا ہے۔دیوہیکل مچھلی کو ساحل پر لانے کے لیے ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مچھلی پکڑنے کے بعد اسے ہول سیل مارکیٹ میں لے جایا گیا جہاں اس کی قیمت یتزی سے بڑھ گئی۔رپورٹ کے مطابق تیلیا بھولا مچھلی 49 ہزار 300 روپے فی کلو کے حساب سے 36 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔مچھلی سے متعلق کہا جارہا ہے کہ پیٹ میں کچھ قیمتی وسائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اتنی مہنگی ہوجاتی ہے، وسائل کو مختلف اقسام کی ادویات اور دیگر اشیا بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔برمن نامی ماہی گیر نے بتایا کہ وہ برسوں سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں اور ہر سال تیلیا بھولا مچھلی پکڑنے جاتے ہیں تاہم اس نے اتنی بڑی مچھلی پکڑنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 4:28 pm

بھنگ کے استعمال کی اصل کہانی تو اب سامنے آگئی کتنے فیصد نوجوان بھنگ کا استعمال کرتے ہیں،جانیں - اسلامک گائیڈ آف لائف

 امریکا اور کینیڈا میں ہر 7 میں 1 سے زیادہ کمسن اور نوجوان اپنی زندگی میں بھنگ کا استعمال کرتے ہیں۔بچوں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے تجزیاتی رپورٹ کے مطابق یہ ڈیٹا 2019 اور 2020 میں لیا گیا اور اس سے پتہ چلا کہ تقریباً دو لاکھ کے قریب افراد جن کی عمریں گیارہ سے 18 سال تھی۔

ان کے ڈیٹا سے حاصل نتائج کے مطالعے سے یہ نشاندہی ہوئی کہ 14 فیصد نے منشیات کو اسموک کرنے کے لیے ای سگریٹ کا استعمال کیا، جسے بھنگ بھی کہتے ہیں۔ محققین کے مطابق یہ تعداد 2013 اور 2016 کے درمیان 6 فیصد تھی۔ جبکہ 2019 اور 2020 میں ایک اور تخمینے کے مطابق اسی عمر کے 13 فیصد افراد نے بارہ ماہ کے دوران بھنگ کا استعمال کیا اور یہ تعداد 2017 اور 2018 کے عرصے سے 7 فیصد زیادہ تھی۔ یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ برسبین آسٹریلیا کے پی ایچ ڈی کرنے والے تحقیق کار مسٹر لم کا کہنا ہے کہ اس سے نوجوانی اور بچپن میں نہ صرف ذہنی اور دماغی نشو ونما متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں دوسری اشیاء پر انحصار سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو کہ زندگی کے بعد میں آنے والے دور میں سماجی

اور دیگر مسائل کا سبب بنتے ہیں۔


 

Monday, 17 October 2022

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 12:05 pm

تین چیزوں کا نسخہ سو سال تک بیماریوں کی گارنٹی موٹاپے - اسلامک گائیڈ آف لائف

عام ملنے والے یہ تین قدرتی اجزاء ہماری صحت مند زندگی کیلئے مفید ہیں ۔ان کو اگر خاص طریقے سے ملا کر مناسب وقت پر استعمال کیا جائے تو ہڈیوں کی کمزوری جوڑوں میں درد پٹھ۔وں ک۔ھنچاؤ اور اک۔ڑن جیسے امراض فوراً ٹھیک ہوجائیں گے ۔اس کے علاوہ جسم میں کولیسٹرول بڑھا ہوا ہے شریانوں کےبند ہونے کا مسئلہ ہو بلڈ پریشر ہائی ہو جسم میں کوئی بھی پوشیدہ ک۔مزوری ہو تو ان تمام بیماریوں کیلئےاث۔ردار علاج ہے۔

۔جبکہ ایسے افراد جن کا وزن بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ وہ اپنی چربی کو تیزی سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے یہ علاج بہت زیادہ افادیت رکھتا ہے ۔ یہ ریمڈی بہت آسان ہے گھر میں آپ اس کو آسانی سے بنا کر استعمال کرسکتے ہیں اس کی خاص بات یہ ہے کہ شوگر کے مریض اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ ریمڈی شوگر لیول کو کنٹرول کرتی ہے ۔اس ریمڈی کو بنانے کا آسان طریقہ اور علاج آپ کو بتاتے ہیں ۔ اس کو بنانے کیلئے پہہلی چیز پھول مکھانے ہیں جوکہ طاقت کا مکمل خزانہ ہیں ان کو کھانے سے جسم میں کسی قسم کی کمزوری نہیں رہتی ۔پھول مکھانی کیلشیم پروٹین زنک کاپر میگنیشیم اور اینٹی آکسیڈنٹ جیسے قیمتی منرلز سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ آپ نے آدھا کپ لینے ہیں ۔دوسری چیز عام دکھنے والی یہ گوند اپنے اندر طاقتور فوائد رکھتی ہے ۔ کو استعمال کرنے سے ہڈیوں جوڑوں اور کمر کا درد ٹھیک ہوجاتا ہے۔

جسم میں تھکاوٹ سستی نہیں رہتی ۔جسم کی اندرونی کمزوری اور لیکوریا کا بہترین علاج ہے ۔ ہارٹ اٹیک او ر بڑھتے کولیسٹرول کیلئے بےحد مفید ہے ۔ یہ آپ نے کپ کا چوتھا حصہ لینا ہے ۔ تیسری چیز آپ نے السی کے بیج لینے ہیں ۔السی کے بیج قبض کو ٹھیک کرنے موٹاپے اور ہڈیوں کے امراض کا بہترین علاج ہیں۔ 100گرام السی کے بیج کو توے پر ہلکا روسٹ کرلیں جب نمی خشک ہوجائے تو ان کو پیس کر سفوف بنالیں اور کسی ہوا بند جار میں محفوظ کرلیں اس کے بعد ایک چمچ دیسی گھی میں کیکر کی گوند اور پھول مکھانے فرائی کرلیں جب دونوں اجزاء علیحدہ علیحدہ فرائی ہوجائیں تو ان کو ملا لیں اور اس میں ایک چائے کا چمچ السی کے بیج کاپاؤڈر شامل کریں۔ اس میں حسب ذائقہ کالا نمک چاٹ مصالحہ یا پھر ایک سے دو چٹکی کالی مرچ کا پاؤڈر ملا کر عصر کے وقت یا پھر صبح ناشتہ میں استعمال کریں

اس کو چالیس دن سے پچاس دن استعمال کرنے سے نہ تو آپ پر بڑھاپا آئیگا اور نہ ہی بیماری لاحق ہوگی اس کا کوئی نقصان نہیں صرف حمل کے دوران اس کو استعمال نہ کریں۔ آپ نے اس نسخہ کو ضرور استعمال کرنا ہے انشاء اللہ آپ کو بہترین نتائج دیکھنے کو ملیں گے ۔آپ اپنے جسم میں بھرپور صحت محسوس کریں


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 12:04 pm

نوراں کنجری اور امام مسجد کی حیران کر دینے والی داستان - اسلامک گائیڈ آف لائف

 دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب محکمہ اوقاف نے زبردستی میری تعیناتی شیخو پورہ کے امیر محلے کی جامعہ مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاوڈ سپیکر پے تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا. شومئی قسمت کے وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا.

نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا.بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ. جو سنتاتھا ہنستا تھا یا پھر اظہار افسوس کرتا تھا۔محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی۔ تنخواہ کا ایک معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو میری پوسٹنگ کا سن کے ایک آنکھ دبا کر بولا قبلہ مولوی صاحب، آپ کی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں.’ میں تو گویا زمین میں چھ فٹ نیچے گڑ گیا’ پھر اللہ بھلا کرے میری بیوی کا جس نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا کے امامت ہی توہے، کسی بھی مسجد میں سہی. اور میرا کیا ہے؟ میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی. پردے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا. اور پھر ہمارے کونسے کوئی بچے ہیں کے ان کے بگڑنے کا ڈر ہو۔ بیوی کی بات سن کر تھوڑا دل کو اطمینان ھوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا.

بچوں کا ذکر چھڑ ہی گیا تو یہ بتاتا چلوں کے شادی کے بائیس سال گزرنے کے باوجود اللہ نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا. خیر اب تو شکوہ شکایت بھی چھوڑ چکے تھے دونوں میاں بیوی. جب کسی کا بچہ دیکھ کر دل دکھتا تھا تو میں یاد الٰہی میں دل لگا لیتا اور وہ بھلی مانس کسی کونے کھدرے میں منہ دے کر کچھ آنسو بہا لیتی۔ سامان باندھ کر ہم دونوں میاں بیوی نے اللہ کا نام لیا اور لاہورجانے کے لئے ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہوگئے. بادامی باغ اڈے پے اترے اور ہیرا منڈی جانے کے لئے سواری کی تلاش شروع کی۔ ایک تانگے والے نے مجھے پتا بتانے پر اوپر سے نیچے تلک دیکھا اور پھر برقع میں ملبوس عورت ساتھ دیکھ کر چالیس روپے کے عوض لے جانے کی حامی بھری۔ تانگہ چلا تو کوچبان نے میری ناقص معلومات میں اضافہ یہ کہہ کر کیا کے

‘میاں جی، جہاں آپ کو جانا ہے، اسے ہیرا منڈی نہیں، ٹبی گلی کہتے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ میں ہم پہنچ گئے. دوپہر کا وقت تھا۔ شاید بازار کھلنے کا وقت نہیں تھا. دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا. وہ ہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں، میلے کرتوں کے غلیظ دامن سے ناک پونچھتے ننگ دھڑنگ بچے، نالیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پے مڈلاتی بے حساب مکھیاں،سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے اور ان سے بحث کرتی کھڑکیوں سے آدھی باہرلٹکتی عورتیں، فرق تھا تو صرف اتنا کے پان سگریٹ اور پھول والوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں۔ دوکانیں تو بند تھیں مگر ان کے پرانے بورڈ اصل کاروبار کی خبر دے رہے تھے۔ مسجد کے سامنے تانگہ کیا رکا، مانو محلے والوں کی عید ہوگئی۔ پتہ نہیں کن کن کونے کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل کر جمع ہونے لگیں.

ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پے اٹھا لیا. ’’ابے نیا مولوی ہے‘‘بیوی بھی ساتھ ہے. پچھلے والے سے تو بہتر ہی ہوگا’ کیا پتہ لگتا ہے بہن، مرد کا کیا اعتبار؟ ‘ہاں ہاں سہی کہتی ہے تو داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک،عجیب طوفان بدتمیز تھا۔ مکالموں اور فقروں سے یہ معلوم پڑتا تھا کے جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں، شرفاء کے محلے میں کوئی طوائف وارد ہوئی ہو۔ اس سے پہلے کے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا، خدا خوش رکھے غلام شبیر کو جومولوی صاحب، مولوی صاحب کرتا دوڑا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا. پتہ چلا کے مسجد کا خادم ہے اور عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی نہایت محنت اور دیانت داری سے ادا کر رہا تھا۔ بھائی طبیعت خوش ہوگئی اس سے مل کے، دبلا پتلا پکّی عمر کا مرد، لمبی سفید داڑھی،صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا،

کندھے پے چار خانے والا سرخ و سفید انگوچھا، پیشانی پے محراب کا کالا نشان، سر پے سفید ٹوپی اور نیچی نگاہیں،سادہ اور نیک آدمی اور منہ پے شکایت کا ایک لفظ نہیں، بوڑھا آدمی تھا مگر کمال کا حوصلہ و ہمّت رکھتا تھا ۔ سامان سنبھالتے اور گھر کو ٹھیک کرتے ہفتہ دس دن لگ گئے۔گھر کیا تھا دو کمروں کا کوارٹر تھا مسجد سے متصل۔ایک چھوٹا سا باورچی خانہ، ایک اس سے بھی چھوٹا غسل خانہ اور بیت الخلا اور ایک ننھا منا سا صحن. بہرحال ہم میاں بیوی کو بڑا گھر کس لئے چاہیے تھا۔بہت تھا ہمارے لئے، بس ارد گرد کی عمارتیں اونچی ہونے کی وجہ سے تاریکی بہت تھی۔ دن بارہ بجے بھی شام کا سا دھندلکا چھایا رہتا تھا۔ گھر ٹھیک کرنے میں غلام شبیر نے بہت ہاتھ بٹایا۔ صفائی کرنے سے دیواریں چونا کرنے تک۔ تھوڑا کریدنے پے پتا چلا کے یہاں آنے والے ہر امام مسجد کے ساتھ غلام شبّیرگھر کا کام بھی کرتا تھا۔ بس تنخواہ کے نام پے غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد ہی میں سوتا تھا۔یوں اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی

اور مسجد کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی۔ ایک بات جب سے میں آیا تھا، دماغ میں کھٹک رہی تھی۔ سو ایک دن غلام شبیر سے پوچھ ہی لیا۔ میاں یہ بتاؤ کے پچھلے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرا گزرا؟ وہ تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک طرف لے گیا کے بیگم کے کان میں آواز نہ پڑے میاں جی اب کیا بتاؤں آپ کو؟ جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی۔محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے۔ بس دل آ گیا ایک لڑکی پے۔لڑکی کے دلال بھلا کہاں جانے دیتے تھے سونے کی چڑیا کو۔پہلے تو انہوں نے مولانا کو سمجھانے کی کوشش کی، پھر ڈرایا دھمکایا لیکن مولانا نہیں مانے۔ایک رات لڑکی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی۔بادامی باغ اڈے پر ہی پکڑے گئے۔ظالموں نے اتنا مارا پیٹا کے مولانا جان سے گئے’. غلام شبّیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی۔

پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟’ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ غلام شبیر ہنسنے لگا۔کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی۔ پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے۔ بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب۔ اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے لاحول ولا قوّت الا باللہ ،کہاں اس جہنم میں پھنس گئے۔’ میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا‘۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھائیں۔ دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے ان کو قران پڑھا دیں باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں.’ غلام شبیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آئی۔ انہی شروع کے ایام میں ایک واقعہ ہوا۔

پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پے کسی نے دستک دی. غلام شبیر نے جا کے دروازہ کھولا اور پھر ایک کھانے کی ڈھکی طشتری لے کے اندر آ گیا۔ میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا ’نوراں نے کھانا بھجوایا ہے، پڑوس میں رہتی ہے‘ میں کچھ نا بولا اور نا ہی مجھے کوئی شک گزرا۔سوچا ہوگی کوئی اللہ کی بندی اور پھر امام مسجد کے گھر کا چولھا تو ویسے بھی کم ہی جلتا ہے۔بہرحال جب اگلے دو دن بھی یہ ہی معمول رہا تومیں نے سوچا کے یہ کون ہے جو بغیر کوئی احسان جتائے احسان کیے جا رہی ہے۔عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں ہی تھا جب غلام شبیر کو آواز دے کے بلایا اور پوچھا میاں غلام شبیر یہ نوراں کہاں رہتی ہے؟ میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کر اس کا شکریہ ادا کرآئے۔ غلام شبیر کے تو اوسان خطا ہو گئے یہ سن کر’ میاں جی ، بی بی نہیں جا سکتی جی وہاں،میں نے حیرانی سے مزید استفسار کیا تو گویا غلام شبیر نے پہاڑ ہی توڑ دیا

میرے سر پے‘ میاں جی ، اس کا پورا نام تو پتا نہیں کیا ہے مگر سب اس کو نوراں کنجری کے نام سے جانتے ہیں. پیشہ کرتی ہے جی!پیشہ کرتی ہے؟ یعنی طوائف ہے؟ اور تم ہمیں اس کے ہاتھ کا کھلاتے رہے ہو؟ استغفراللہ! استغفراللہ۔ غلام شبیر کچھ شرمسار ہوا میرا غصّہ دیکھ کر تھوڑی دیر بعد ہمّت کر کے بولا:میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی لوگ رہتے ہیں ان کے ہاتھ کا نہیں کھائیں گے تو مستقل چولھا جلانا پڑے گا جو آپ کی تنخواہ میں ممکن نہیں۔ یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا’ہم شریف لوگ ہیں غلام شبیر ،بھوکے مر جائیں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھائیں گے‘۔میرے تیور دیکھ کر غلام شبیر کچھ نہ بولا مگر اس دن کے بعد سے نوراں کنجری کے گھر سے کھانا کبھی نا آیا۔ جس مسجد کا میں امام تھا، عجیب بات یہ تھی کے اس کا کوئی نام نہیں تھا.

بس ٹبی مسجد کے نام سے مشہور تھی۔ ایک دن میں نے غلام شبیر سے پوچھا کے ‘‘میاں نام کیا ہے اس مسجد کا؟’’ وہ ہنس کر بولا۔ میاں جی اللہ کے گھر کا کیا نام رکھنا؟ پھر بھی؟ کوئی تو نام ہوگا، سب مسجدوں کا ہوتا ہے’’ میں کچھ کھسیانا ہو کے بولا‘‘ بس میاں جی بہت نام رکھے جس فرقے کا مولوی آتاہے، پچھلا نام تبدیل کر کے نیا رکھ دیتا ہے آپ ہی کوئی اچھا سا رکھ دیں.’’ وہ سر کھجاتا ہوا بولا. میں سوچ میں پڑ گیا۔ گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے؟ ‘‘کیا نام رکھا جائے مسجد کا؟ ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا۔ گناہوں کے کیچڑ میں چمکتا پاک صاف موتی۔’’ دل ہی دل میں میں نے مسجد کے نام کا فیصلہ کیا اور اپنی پسند کو داد دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں بیوی کھانا لگائے میری منتظر تھی ۔ اب بات ہوجائے قرآن پڑھنے والے بچوں کی، تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے،ملی جلی عمروں کے پانچ سے گیارہ بارہ سال کی عمر کے۔

تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے۔نہا دھو کے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کے آتے تھے۔ دو گھنٹے سپارہ پڑھتے تھے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے. کون تھے کس کی اولاد تھے؟ نہ میں نے کبھی پوچھا نا کسی نے بتایا لیکن پھر ایک دن غضب ہوگیا۔قرآن پڑھنے والے بچوں میں ایک بچہ نبیل نام کا تھا. یوں تو اس میں کوئی خاص بات نا تھی لیکن بس تھوڑا زیادہ شرارتی تھا۔تلاوت میں دل نہیں لگتا تھا۔ بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں لگا رہتا،میں بھی درگزر سے کام لیتا کے چلو بچہ ہے لیکن ایک دن ضبط کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس دن صبح ہی سے میرے سر میں ایک عجیب درد تھا. غلام شبیرسے مالش کرائی، پیناڈول کی دو گولیاں بھی کھائیں مگر درد زور آور بیل کی مانند سر میں چنگھاڑتا رہا. درد کے باوجود اور غلام شبّیر کے بہت منع کرنے پر بھی میں نے بچوں کا ناغہ نہیں کیا.

نبیل بھی اس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی شرارتیں کر رہا تھا۔ کبھی ایک کو چھیڑ کبھی دوسرے کو۔ جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گئیں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور میں نے پاس رکھی لکڑی کی رحل اٹھا کر نبیل کے دے ماری،میں نے نشانہ تو کمر کا لیا تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کے رحل بچے کی پیشانی پر جا لگی۔


 

Posted by Put Your Life On Islamic Way On 12:02 pm

سات سال بعد بھائی گھر لوٹا تو بہن نے دیکھتے ہی نقاب اوڑھ لیا، ایک لڑکی کی عجیب کہانی - اسلامک گائیڈ آف لائف

 میں آپ کو ایک معصوم لڑکی پر بیتی دکھ بھری سچی کہانی سنانے جا رہی ہوں۔آج میری زندگی کا بہت اہم انسان آ رہا تھا وہ انسان جس کے نام سے منسوب ہو کر میں پچھلے سالوں پانچ سالوں سے منتظر تھی وہ انسان جس نے زمانے بھر سے ٹکر لے کر مجھے اپنا بنا یا تھا عارف مجھ سے نکاح کرنے کے چند ہی روز بعد اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے بیرون ملک جا بسا تھا

آج وہ پھر سے پانچ سال بعد میرے گھر آ رہا تھا شاید وہ میری رخصتی کی بات کر نے کے لیے آ رہا تھا۔ میں بے حد خوش تھی کہ میری اس ذلت بھر ی زندگی سے جان چھٹ جائے گی اور میں آرام سے پیا ہ کے دیس شہزادیوں کی طرح رہوں گی کیونکہ میں جو زندگی گزار رہی تھی ۔یہ صرف میرا دل ہی جانتا تھا کہ اس زندگی نے مجھے دن رات کتنی بڑی اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا خیر میں نے گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے تھے شام کا وقت ہونے کو تھا۔ جب اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو حسبِ توقع سامنے عارف کھڑا تھا میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اندر لے آ ئی وہ ہمیشہ سے بڑا مودب ثابت ہوا تھا خاموشی سے مہمان خانے آ کر بیٹھ گیا گھر پر اماں کے علاوہ ابا بھی موجود تھے۔

لیکن بیماری کی وجہ سے وہ بستر کے ہو کر رہ گئے تھے اس وقت وہ گہری نیند سو رہے تھے میں عارف کے لیے چلائے لے کر آئی تو ہمارے درمیان رسمی سلام دعا کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد وہ چائے پیتے۔ میری جانب بہت گہری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جن کے ساتھ میں مزید سمٹ جا یا کرتی تھی لیکن آج اس کی آ نکھوں میں ایک عجیب سا احساس تھا۔ نہ جانے وہ کیا تھا جسے میں سمجھ نہیں پائی مجھے دیکھتے ہی ایک دم بو لا آنٹی سنا ہے آپ کی بیٹی شعر بہت اچھے پڑ ھتی ہے۔ میں بھی سننا چاہتا ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو عارف کی یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ ایک دم چونک سی گئی مگر میں نے جذبات کو قابو کرتے ہوئے کہا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں میں اپنی بات مکمل نہیں کر پائی تھی کہ اماں نے میری جانب دیکھا اور بولی بیٹی تمہارے شوہر ہے

کوئی فر مائش کر رہا ہے تو پوری کر دو۔ اماں کی بات سن کر میرا دل مٹھی میں آ گیا عارف کے نظریں متواتر میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔ جیسے وہ میرے چہرے کے تاثرات پڑھ رہا ہو یا کچھ کھوج رہا ہو۔ میں نے نگا ہیں جھکا لیں اور شعر پڑھنے لگی۔ عارف دل ہی دل میں ناجانے کیا سوچ رہا تھا۔ کیوں کہ شعر ختم ہو جانے کے چند منٹ تک وہ کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ اماں کے پکڑنے پر ایک دم چونک کر اماں کی جانب دیکھنے لگا او ر ساتھ ہی مجھے بہت اد دی لیکن اس کا داد دینے کا انداز بالکل ایسے تھا جیسے کسی بازاری عورت کے حسن کی تعریف کی جاتی ہو۔ اب میں روز اپنی آنکھوں کو خوبصورت میک اپ سے سجا کر صرف سکاف تلے چھپاتی اور اپنے چہرے کو بھی نقاب میں چھپا لیتی پھر فیس بک پر لوگوں سےایسی ایسی باتیں کر تیں جو کسی عزت دار کے گھرانے کی لڑکی نہیں کرتی۔

شروع شروع میں مجھے بے حد جھجھک محسوس ہوتی لیکن آہستہ آہستہ یہ میری زندگی کا حصہ بننے لگا۔ پھر میں نے ایک یو ٹیوب چینل بھی بنا لیا جس پر اپنی ہی لگا لیا کر تی تھی۔ میں لوگوں کو گانے سناتی ۔ کئی نوجوان لڑکوں کے لیے شعر پڑھا کرتی ۔ ہزاروں لوگ مجھے داد دیتے ۔ ہر ایک آ نکھوں اور آواز کا دیوانہ تھا۔ آہستہ آہستہ میری شہر ت بڑھنے لگی ۔ میرے فینز کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں ہو گئی اس مقام تک آنے میں اچھی خاصی محنت کی تھی لیکن یہ میں بھول گئی تھی کہ آج کل ہر انسان جدید ٹیکنا لوجی سے متعارف ہو چکا ہے۔ کہیں کوئی اپنا مجھے پہچان نہ لے کبھی کبھی دل چاہتا کہ یہ سب چھوڑ دوں مگر میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ میرے ماں باپ کا اچھا علاج ہونے لگا میں کسی طور یہ سب چھوڑ نہیں سکتی تھی۔

جن بہنوں کے بھائی جیتے جی مر جائیں وہ ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دن ہفتوں ہفتے سالوں میں گزر گئے کئی بار دل میں خیال آ تا کہ اگر عارف کو اس سب کے بارے میں معلوم ہو گا تو میرا کیا بنے گا کہ وہ دن آہی گیا کہ عارف کے سامنے میرا یہ راز کھل گیا میرا جی چاہتا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہو جاؤں لیکن ہم جیسے گناہ گاروں کی زندگی اتنی آسانی سے کہاں تمام ہوتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا تھا کئی دن عارف کے دئیے ہوئے پیسوں کے ساتھ کٹ گئے میں وہ رقم استعمال نہیں کر نا چاہتی تھی لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ وہ ختم ہو گئی مجھے پھر سے اس کیمرے اور مو بائل کا سہارا لینا پڑا میں روز خود کو ملا مت کر تی لیکن پھر مجبور ہو کر وہی گناہ کر بیٹھتی۔ میں نہیں جانتی تھی

کہ میرا یہ گناہ میرے گلے کا طوق بن جائے گا۔ ایک روز مجھے گھر کا سامان لینے باہر جا نا پڑا میری چادر سوکھنے کے لیے ڈالی ہوئی تھی۔ تمہارے چہرےسے کوئی غرض نہیں ہے یہ سب کہتے ہوئے وہ میرے آنکھوں پر ٹارچ پر لگائے مجھے گھور رہا تھا۔ وہ بالکل پاگل لگ رہا تھا۔ میرے ابا کا انتقال ہو گیا تھا۔ اماں بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھے بری طرح پیٹنے لگی کہاں چلی گئی تھی تو تیرے باپ تیری یاد میں مو ت کے منہ میں چلا گیا اماں کی حالت دیکھ کر مجھے خود پر غصہ آ نے لگے۔ تھوڑی دیر میں محلے والے بھی جمع ہو گئے مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ظاہر ہے مجھے لوگوں کے اس سوال کا بھی جواب دینا تھا کہ رات کے اس پہر گھر سے باہر گزار کر کہاں سے آئ ہوں میرے ابا کی چارپائی اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جا ئی جا رہی تھی۔

اور میں وہیں زمین پر بیٹھی زارو قطار خاموشی سے آ نسو بہا رہی تھی اما ں مجھے روتے ہوئے پیٹتے ہوئے وہاں سے اٹھا کر کمرے میں لے آئیں انہوں نے مجھے بتایا کہ رات کو ابا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور تم گھر پر نہیں تھی کھانستے کھانستے ان کی جان نکل گئی یہ کہہ کر اماں پھر سے رونے لگی تو کہاں چلی گئی تھی اماں نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا ہم ماں بیٹی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ایک ماں ہی بیٹی کے دل کا حال سمجھ سکتی ہے اماں نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا پھر ابا کی موت کو چند دن ہی گزرے تھے کہ محلے والوں نے ہمیں نکال دیا۔ وہ ایک گھر ہی ہمارا واحد سہارا تھا۔ ہم نے وہ گھر بیچ دیا اور دوسرے گاؤں میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ یہ راز آ ج تک دل میں محفوظ ہے کہ رات کو کیا ہوا تھا میرے بھائی کو میں نے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔

میں ہر وقت اپنے اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔ کہ میرے گناہوں کو معاف کر دے ۔ میں نے نئے محلے میں اپنی جان پہچان بنا لی ہے میں کیسے بھول سکتی تھی کہ بے شک ساری دنیا ہمیں چھوڑ دے لیکن اللہ کبھی نہیں چھوڑتا اب میں نے اپنے رب کا سہارا لیا ہے میں محلے کے بچوں کو قرآن پڑھاتی ہوں ۔ اور باقی وقت اپنے گھر کے کاموں اور اماں کی خدمت میں گزارتی ہوں۔ شاید اللہ نے مجھے معاف کر دیا تو پھر محلے کے لوگ ہماری عزت کرتے ہیں لیکن ایک بات آپ سب سے پو چھنا چاہتی ہوں کہ کیا مجھے اس رات کا راز اپنی ماں کو بتا دینا چاہیے یا پھر زندگی اسی طرح خاموشی سے چلتی رہے جیسے کچھ سالوں سے چل رہی ہے